وزیر اعظم عمران خان کو سپریم کورٹ کا نوٹس

جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟

(فائل فوٹو: فیس بک عمران خان)

سپریم کورٹ نے جائیداد سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران آج وزیراعظم پاکستان عمران خان کو نوٹس جاری کردیا۔

نوٹس کنونشن سینٹر میں وکلا کی ایک تقریب میں شرکت کرنے پر جاری کیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟

جسٹس قاضی عیسی نے مزید کہا کہ 'وزیراعظم نے وکلا کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی ہے۔ انچارج کنونشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گئے؟'

'کیا وزیراعظم نے نجی حیثیت میں کنونشن سینٹر کا استعمال کیا؟ وزیراعظم ملک کے ہر فرد کا وزیراعظم ہے۔'

عدالت نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنوشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز جاری کر دیے۔

پیر کے روز جسٹس قاضی فائز عیسی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جائیداد کے ایک مقدمے کی سماعت کی جس میں ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کو نوٹس جاری کی گیا تھا۔ لیکن ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے پیش نہ ہوئے۔

ان کی عدم حاضری پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ 'ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کنونشن سینٹرمیں ہونے والے سیاسی اجتماع میں شرکت کر سکتے ہیں لیکن عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتے؟'  جسٹس قاضی عیسی نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل  کسی سیاسی جماعت کا نہیں،پورے صوبے کا ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ نو اکتوبر کو تحریک انصاف وکلا فورم کی تقریب کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہوئی تھی جس میں وزیراعظم عمران خان نے شرکت کی تھی۔

‏جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ 'وزیراعظم پاکستان پورے ملک کا وزیراعظم ہے یا کسی ایک سیاسی جماعت کا؟

انہوں نے کہا کہ 'یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔ بظاہر کنونشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حثیت میں شرکت کی ہے۔ وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ پیروی نہیں ہوسکتی۔'

ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہے، آئین کا آرٹیکل17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے۔

اس پر جسٹس قاضی عیسی نے ریمارکس دیے کہ  'آپ کی جو مرضی ہے کریں لیکن وزیراعظم کا رتبہ بہت بڑا ہے۔ یہ تقریب کسی پرائیوٹ ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی لیکن تقریب کے لیے ٹیکس پئیر کے ریونیو کا استعمال کیا گیا۔' انہوں نے مزید کہا کہ 'ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی اپنی ذمہ داریاں ہیں ایسی سرگرمیوں میں شریک ہوئے جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں؟'

جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ 'کنونشن سینٹر کسی کی ذاتی جائیداد نہیں ہے۔ کیا سپریم کورٹ کا جج وکلا پینل کی تقریب ہولڈ کرا سکتا ہے؟ کیا وزیراعظم نے یہ اقدام کرکے درست کیا؟ آپ صوبے کے پرنسپل لا آفیسر ہیں، شاید آپ کی نوکری چلی جائے۔'

عدالت نے وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل،صدرسپریم کورٹ بار اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کوطلب کرلیا اور اس معاملے پر بنچ تشکیل دینے کے لیے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس کو ارسال کردیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان