عورت کی جگہ گھر میں نہیں، نیزہ تھامے شکار کے میدان میں: تحقیق

سائنس دانوں نے پیرو کے اینڈیس پہاڑی سلسلے میں ایک نوجوان خاتون کی نو ہزار سال پرانی باقیات دریافت کی ہیں جن کے ساتھ بڑے جانوروں کے شکار کے لیے استعمال ہونے والا ساز و سامان بھی ملا۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ڈیوس کی جانب سے فراہم کردہ اس تصویر میں ماہرین آثار قدیمہ پیرو کے ولمایا پیٹیا علاقے میں کھدائی کرتے ہوئے (رینڈل ہاس/ یو سی ڈیوس/اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ شروع ہی سے خواتین کی جگہ گھر میں نہیں بلکہ شکار کے میدان میں تھی۔

سائنس دانوں نے بدھ کو انکشاف کیا کہ انہوں نے براعظم جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے اینڈیز پہاڑی سلسلے میں ایک نوجوان خاتون کی نو ہزار سال پرانی باقیات دریافت کی ہیں جن کے ساتھ بڑے جانوروں کے شکار کے لیے استعمال ہونے والا ساز و سامان بھی ملا۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، ڈیوس کے رینڈل ہاس کی سربراہی میں کام کرنے والی ایک ٹیم نے ایسے ساز و سامان کے ساتھ دفنائے گئے 27 افراد کی باقیات کا تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قدیم امریکہ میں اس دور میں بسنے والے شکاریوں میں سے 30 سے 50 فیصد ممکنہ طور پر خواتین تھیں۔

’سائنس ایڈوانسز‘ نامی جریدے میں چھپنے والا یہ ریسرچ پیپر اس عام تصور کے متضاد ہے کہ قدیم دور کی (hunter-gatherer societies) شکاری اور جمع کرنے والی برادریوں میں شکاری مرد تھے اور جمع کرنے والی خواتین۔

اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے رینڈل ہاس نے کہا: ’میرے خیال میں یہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسان کی قدیم تاریخ میں کم سے کم کچھ حصہ ایسا تھا جس کے بارے میں ہمارا تصور غلط تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس تحقیق کے نتائج ’آج کے دور میں لیبر پریکٹسز میں مساوات، جیسے جینڈر پے گیپ (برابر اجرت نہ ملنا)، رتبہ اور اونچے ٹائٹل نہ ملنے، کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔یہ نتائج اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ان مساوات کے بارے میں کچھ بھی ’فطری‘ نہیں ہے۔‘

ہاس اور مقامی کمیونٹی مولا فسیری کو دو شکاریوں سمیت چھ قدیم انسانوں کی باقیات 2018 میں ولمایا پیٹیا میں ملیں تھیں جو کہ پیرو کے پہاڑی علاقوں میں ایک اہم آثار قدیمہ کا مقام ہے۔

شکاریوں کی ہڈیوں کی ساخت اور ان کے دانتوں کی اینامل کے پیپٹائڈ نامی مالیکیولز کا جائزہ لینے سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملی کہ ان میں سے ایک 17 سے 19 سال کی خاتون تھیں اور ایک 25 سے 30 سال کے مرد۔

ہاس نے بتایا کہ خاتون کی تدقین کی جگہ پر کھدائی ان کی ٹیم کے لیے خاص طور پر ’دالچسپ‘ تھی۔

جیسے جیسے وہ کھودتے گئے انہیں مخلتف قسم کے شکار اور جانوروں کو پراسیس کرنے کے آلات ملتے گئے جو اس بات کے شواہد پیش کرتے تھے کہ وہ بھی شکاری تھیں۔

ان آلات میں بڑے جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے نوکیلے پتھر، اندرونی اعضا نکالنے کے لیے ایک چھری اور پھتر اور کھال کو صاف کرنے اور سکھانے کے لیے استعمال ہونے والی چیزیں شامل ہیں۔

ممکن ہے کہ ان آلات کو ایک چمڑے کے بیگ میں ساتھ رکھا جاتا ہو۔

ریسرچ پیپر کے مطابق خاتون، جس کا نام سائنس دانوں نے ’ڈبلیو ایم پی سکس‘ رکھا ہے، ’اتلتل‘ نامی ایک آلہ استعمال کرتی ہوں گی جس کی مدد سے ہمارے قدیم ابا و اجداد نیزوں کو زیادہ دور تک پھینک سکتے تھے۔ اس دور میں ان کا مرکزی شکار ویکونا نامی ایک نسل ہوگی جو موجودہ اینڈین ہرن، ایلپاکا، کے جنگلی اجداد تھے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے کہ کہیں یہ خاتون اپنے دور ایسی واحد شخص نہ ہوں، محققین نے امریکی براعظم پر چار ہزار سے 17 ہزار سال پرانے تدفین کے 107 مقامات میں دفن 429 افراد کی باقیات کا جائزہ لیا۔

ان میں سے انہیں 27 ایسے افراد ملے جن کی جنس کا درست اندازہ لگایا جا چکا تھا اور جو شکار میں استعمال ہونے والے آلات کے ساتھ دفنائے گئے تھے۔ محققیق کو معلوم ہوا کہ ان میں 16 مرد تھے اور 11 خواتین۔

ایک سٹیٹسٹکل ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے اندازہ لگایا کہ ان برادریوں میں 30 سے 50 فیصد خواتین شکاری تھیں۔ پیپر میں انہوں نے لکھا: ’یہ سیمپل اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کافی ہے کہ بڑے جانوروں کے شکار میں خواتین کی شراکت داری کم نہیں تھی۔‘

ٹیم نے مزید لکھا کہ یہ نئی تحقیق پہلے سے موجود تحقیقوں میں سامنے والے ان نتائج میں اضافہ کرتی ہے کہ ’موجودہ جینڈر رولز اکثر قدیم جینڈر رولز کی عکاسی نہیں کرتے۔‘

اس سے قبل 2017 میں جینیات پر مبنی ایک تحقیق میں ایک وائکنگ جنگجو خاتون کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔  

ہاس کو امید ہے ان کے پیپر سے اس بارے میں مزید تحقیق کی جائے گی آیا اس دور میں دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی خواتین شکاری تھیں یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین