پٹیالہ گھرانے کی نئی نسل پاپ موسیقی کی طرف راغب

21 سالہ سعادت شفقت امانت علی نے اپنے بزرگوں کی پہچان یعنی کلاسیکی موسیقی کی بجائے جدید دور کی مانگ کے مطابق پاپ میوزک کو کامیابی کی سیڑھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعادت شفقت امانت علی اپنے خاندانی روایتی لباس یعنی کڑھائی والا چمکیلا کرتا اور پاجامہ پہننے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔ تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

فن موسیقی میں سخت مقابلے کے باعث نئی نسل کے لیے اپنی کامیابی کے ساتھ پُرکھوں کے نام کی لاج رکھنا ایک کڑا امتحان ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں یکساں مقبول پٹیالہ گھرانے کی چھٹی نسل منفرد انداز لیے اس میدان میں اتر آئی ہے۔

21 سالہ نوجوان سعادت شفقت امانت علی نے حال ہی میں اپنا پہلا گانا ریکارڈ کرا کے فن موسیقی کے سمندر میں قدم رکھا لیکن انہوں نے اپنے بزرگوں کی پہچان یعنی کلاسیکی موسیقی کی بجائے جدید دور کی مانگ کے مطابق پاپ میوزک کو کامیابی کی سیڑھی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وہ فن کا مظاہرہ کرتے وقت نہ تو گٹار اور نہ ہی ہارمونیم کا سہارا لیتے ہیں بلکہ ساز ہمنوا بجاتے ہیں اور آواز ان کی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے خاندانی روایتی لباس یعنی کڑھائی والا چمکیلا کرتا اور پاجامہ پہننے سے بھی اجتناب کیا ہے۔

سعادت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بڑے فنکاروں کی اولاد کو اپنے ہی بڑوں کی سطح پر آنے کے امتحان کا سامنا ابتدا سے ہی کرنا پڑتا ہے، فن وراثت نہیں ہو سکتا بلکہ اہلیت، لگن اور محنت سے ہی اس پر عبور حاصل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاپ میوزک انہوں نے کسی سے نہیں سیکھا اور نہ ہی اس کے لیے ریاض کرتے ہیں کیونکہ ان کے گھرانے میں کلاسیکی موسیقی جیسے ٹھمری، غزل وغیرہ گا کر ہی ریاض کرایا جاتا ہے۔

سعادت نے بتایا کہ وہ موسیقی کے ساتھ اپنی ماں کی خواہش پر تعلیم بھی مکمل کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر مداحوں نے ان کے بزگوں کی طرح ان کے فن کو بھی داد دی تو وہ انہیں مایوس نہیں کریں گے۔

نوجوان فنکار نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی فوک موسیقی سنتے آئے ہیں، اس لیے اُسی طرز کی موسیقی کو اپنایا ہے، تاہم ان کے گھرانے کی جانب سے کوئی پابندی نہیں کہ کس طرح کا فن موسیقی اپنایا جائے۔

سعادت کے والد شفقت امانت علی خان بھی اپنے آباؤ اجداد کے اس فن کا لوہا دنیا بھر میں منوا چکے ہیں اور ان کے کئی گانے سپر ہٹ ہوئے۔

بڑے فنکاروں کی اولاد کو اپنے ہی بڑوں کی سطح پر آنے کے امتحان کا سامنا ابتدا سے ہی کرنا پڑتا ہے، سعادت شفقت امانت علی

پٹیالہ گھرانے کے حوالے سے سعادت نے بتایا کہ اس گھرانے کا یہ نام بھارتی ریاست پٹیالہ سے وابستگی کی وجہ سے پڑا۔ اس گھرانے کے بانی خان صاحب جرنیل علی بخش خان اور خان صاحب کرنیل فتح علی خان تھے۔ یہ دونوں گو کہ آپس میں رشتے دار نہ تھے لیکن ہمیشہ سگے بھائیوں کی طرح رہے اور جہاں گانے کے لیے گئے، اکٹھے ہی گئے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں پہلے گوکھی بائی کے شاگرد ہوئے، پھر بہرام خان، مبارک علی خان اور تان رس خان سے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھتے رہے۔ مہاراجا پٹیالہ نے انہیں جرنیل اور کرنیل کے خطابات دیے۔علی بخش کے بیٹے استاد اختر حسین خان کے تین بیٹے ہوئے جو دنیائے موسیقی میں استاد امانت علی خان، استاد فتح علی خان اور استاد حامد علی خان کے نام سے مشہور ہیں۔ گوالیار گھرانے کے ایک گائیک کو بھی استاد فتح علی خان کے نام سے جانا جاتا ہے، لہذا شناخت کے اس مخمصے سے بچنے کے لیے پٹیالہ گھرانے کے استاد فتح علی خان کو استاد بڑے فتح علی خان کہا جاتا ہے۔

برصغیر کے موسیقار گھرانوں میں پٹیالہ گھرانے کا نام سرفہرست ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان، استاد برکت علی خان، استاد عاشق علی خان، استاد مبارک علی خان، استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان سے لے کر استاد حامد علی خان، اسد امانت علی خان، زاہدہ پروین، شفقت امانت علی خان اور رستم فتح علی خان تک کلاسیکی موسیقی کے متعدد بڑے فنکاروں کا تعلق اسی گھرانے سے رہا ہے۔

نئے دور کے مطابق پٹیالہ خاندان کے لوگ فن موسیقی میں جو بھی راہیں اپنائیں لیکن لاہور میں انہوں نے اپنی رہائش گاہ کا نام آج بھی پٹیالہ ہاؤس سے ہی منسوب کر رکھا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی