گلگت بلتستان:بابا جان سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پرعزم

گلگت بلتستان میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان جیل سے رہائی کے بعد سیاست میں اچھے مستقبل کے لیے پراُمید ہیں۔ 

بابا جان  رہائی کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ  (تصویر: رحیم  خان)

گلگت بلتستان میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما بابا جان، شکر اللہ بیگ اور افتخار کربلائی نو سال جیل میں رہنے کے بعد آج کل اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔

بابا جان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو 2011 میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کے احتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد عدالت نے انہیں 40 سال سے 90 سال تک کی قیدِ بامشقت کی سزائیں سنائیں۔ حال ہی میں بابا جان اور دیگر قیدیوں کی رہائی کے لیے گلگت بلتستان میں دھرنا دیا گیا جس کے بعد نگران حکومت نے ان کی جلد رہائی کی یقین دہانی کرائی تھی۔

رہائی کے بعد بابا جان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مشکل وقت میں ساتھ دینے پر میڈیا، عوام اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان ماؤں، بہنوں، بزرگوں اور بھائیوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے سخت سردی میں ان کی رہائی کے لیے دھرنا دے کر نگران حکمران کو مجبور کیا کہ وہ ’ہمارے کیس کو سنجیدہ لیں اور ہماری رہائی میں مثبت کردار ادا کریں۔‘ 

رہائی کے بعد اپنی سیاسی حکمت عملی کے بارے میں انہوں نے کہا: ’ہماری پر امن جدوجہد آب وتاب سے جاری رہے گی کیونکہ ہم غریب عوام کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔‘ بابا جان نے قید کے دوران جیل حکام کے رویے کے بارے میں بتایا کہ انہیں سیاسی قیدی کی حیثیت حاصل نہیں تھی اور وہ عام قیدی تھے۔ ’جیل حکام دباؤ پڑنے پر ہمیں تنگ کرتے تھے، لیکن اچھے حالات میں تھوڑا بہتر سلوک کرتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ قید کے دوران کبھی سوکھی روٹی کے ساتھ پانی ملتا تھا، پھر جب سول سوسائٹی اور اہل خانہ نے احتجاج کیا تو کھانا خود پکانے کی اجازت مل گئی۔ ’جیل میں لمبا عرصہ گزارنے کے باعث صحت کچھ خراب ہوئی ہے، جس کا علاج کرا رہا ہوں۔‘

 بابا جان کے اوپر بنائے گئے کیسز ابھی ختم نہیں ہوئے بلکہ انہیں ضمانت پہ رہائی ملی ہے۔

اس پورے معاملے پر لمز یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مزدور کسان پارٹی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر تیمور رحمان نے کہا کہ ’ترقی پسند رہنما بابا جان کی رہائی ہمارے لیے بڑی خوش خبری ہے۔ اب وہ گلگت بلتستان کی سیاست میں مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے بابا جان یوں تو سیاسی طور پر پہلے بھی متحرک تھے، لیکن ان کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب چار جنوری 2010 کو لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطا آباد جھیل وجود میں آئی اور بابا جان نے متاثرین کے حق میں ایک مہم چلائی تھی۔

اس وقت گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، 11 اگست کو علی آباد میں متاثرین کے ایک مظاہرے کے دوران پولیس کی فائرنگ سے ایک شخص اور اس کا 22 سالہ بیٹا ہلاک ہو گیاتھا، جس کے بعد مشتعل مظاہرین نے مقامی پولیس سٹیشن کو آگ لگا دی تھی۔

بابا جان نے اس واقعے کے خلاف مہم چلاتے ہوئے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن حکومت نے بابا جان کے خلاف جلاؤ گھیراؤ کے الزام میں دہشت گردی کے مقدمات درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان