کون سے بم پھوڑے تھے جو بھائی پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگا؟ بہن بابا جان

بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے گلگت بلتستان کے 40 سالہ بابا جان کو انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے 70 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، تاہم ان کی بہن شگفتہ خانم اسے’ظلم و زیادتی‘ قرار دیتی ہیں۔

’سب پوچھتے ہیں کہ بابا جان کو کیوں جیل میں ڈالا گیا ہے، اصل وجوہات کیا ہیں؟ اور اصل وجہ یہ ہے کہ بابا جان کے ساتھ سیاسی انتقام لیا گیا ہے۔‘

یہ کہنا ہے شگفتہ خانم کا جو بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے گلگت بلتستان کے 40 سالہ بابا جان کی بہن ہیں۔ بابا جان کو انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے 70 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے اور وہ گذشتہ دس برس سے اپنے ساتھیوں سمیت ڈسٹرکٹ غذر کی دماس جیل میں قید ہیں۔  

بابا جان کی چھوٹی بہن شگفتہ خانم ان کی سزا کو ’ظلم و زیادتی‘ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی ’بے آواز لوگوں کی آواز تھے‘، جن کی آواز کو دبانے کے لیے انہیں اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے۔

معاملہ کیا تھا؟

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں شگفتہ نے اس سارے واقعے پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ کب اور کس طرح ان کے بھائی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے اور اب تک کیا قانونی کارروائی ہو چکی ہے۔

مکمل انٹرویو دیکھیے: 

شگفتہ نے بتایا: ’2010 میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں عطا آباد کا علاقہ سرک گیا اور وہاں ایک جھیل بن گئی۔ اس وقت یہاں پیپلز پارٹی کی  حکومت کے مہدی شاہ نے مقامی لوگوں سے وعدے کیے لیکن جب انہیں چیک دیے گئے تو وہ بوگس (جعلی) نکلے، جس پر ان لوگوں نے 2011 میں علی آباد میں دھرنا دیا۔ دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کرنے کے بعد گولیاں برسائیں، جس کے نتیجے میں احتجاج کرنے والے دو افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے بعد لوگ مشتعل ہوگئے اور انہوں نے وہاں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔‘

بقول شگفتہ: ’اس سارے واقعے میں بابا جان موجود نہیں تھے بلکہ وہ ناصر آباد کا ایک مسئلہ لے کر نگر میں وزیراعلیٰ کا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان کا نام ایف آئی آر میں ڈالا گیا اور ان کے خلاف ایک بڑا فضول قسم کا کیس بنایا گیا۔ اس ایف آئی آر کا متن یہ ہے کہ انہوں نے ایس ایچ او کے گھر پر حملہ کیا اور دس رشیئن (روسی) کمبل، دس چائنا کے کمبل اور دس تولہ سونا جلا دیا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا: ’ہماری تو روس کے ساتھ تجارت ہے ہی نہیں تو ایس ایچ او کے گھر میں دس روسی کمبل کہاں سے آئے، جنہیں بابا جان اور ان کے ساتھیوں نے جلایا؟ سوال کرنے والے سوال کرتے ہیں لیکن کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا اور بابا جان کے خلاف جھوٹی گواہی دی گئی کہ وہ بھی وہاں موجود تھے۔‘

شگفتہ کے مطابق: ’بابا جان کو صرف اور صرف اس لیے پھنسایا گیا ہے کہ یہاں پر لوگوں کے ساتھ کوئی بھی ظلم یا زیادتی ہوتی تھی تو وہ اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور اپنی آواز بلند کرتے تھے اور جب بابا جان کھڑے ہوتے تھے تو ان کے پیچھے عوام بھی کھڑے ہوتے تھے۔ وہ بے آواز لوگوں کی آواز تھے۔ اگر باقی لوگوں کو وہ جیل میں ڈالتے اور بابا جان کو باہر چھوڑتے تو وہ احتجاج کرواتے۔ وہ باہر بہت زیادہ مزاحمت کرتے، اس لیے ان لوگوں نے اس مزاحمت کو روکنے کے لیے، حق کی آواز کو دبانے کے لیے بابا جان کو ٹارگٹ کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گفتگو کے دوران اپنے بھائی کی صحت کا تذکرہ کرتے ہوئے شگفتہ آبدیدہ ہوگئیں اور بتایا: ’اب جیل میں بابا جان کی صحت کا مسئلہ ہوگیا، انہیں 2013 میں جیل میں بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ایک بہن کے لیے یہ بہت تکلیف والی بات ہوتی ہے کہ اس کا بھائی بے قصور ہو اور اس کو بند کیا گیا ہو اور وہ بھی دہشت گردی کا اتنا گندا والا ٹھپہ، دہشت گردی کا داغ لگا کر۔ کون سے بم پھوڑے گئے تھے، کتنے لوگوں کو قتل کیا تھا جو ان پر دہشت گردی کا مقدمہ کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جب ہمیں یہ پتہ چلا کہ ان کے ساتھ دل کا معاملہ ہے، وہ بیمار ہیں۔۔۔ان کو چیک اپ کے لیے نہیں لے کر جارہے تھے تو ہمیں سڑک پر نکل کر احتجاج کرنا پڑا کہ ان کا علاج کرائیں۔۔ ابھی تک کہتے ہیں کہ دل کا نہیں، ہاضمے کا مسئلہ ہے۔۔کوئی انجیو گرافی نہیں ہوئی، بس کہا گیا کہ ان کو ہاضمے کا مسئلہ ہے تو ہم لوگوں نے بھی مان لیا۔ اب ہم انتظار کر رہے ہیں کسی اچھی گھڑی  کا، ہم انتظار کر رہے ہیں کہ شاید لوگوں کو شعور آجائے، لوگ کہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کیوں ہو رہی ہے۔۔۔ اس چیز کا ہم لوگ انتظار کر رہے ہیں۔‘

’ہمارے دلوں کو بہت پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ میرے بوڑھے والدین روز روز صرف اس انتظار میں ہوتے ہیں، اور صرف میرے نہیں بابا جان کے ساتھ جو 14 ساتھی ہیں ان سب کے والدین اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہمارے بیٹے ایک دن آئیں گے۔‘

شگفتہ کے مطابق جب ان کے بھائی بابا جان کو جیل میں ڈالا گیا تھا تو وہ 30 سال کے تھے۔ وہ اسے شدید ’ناانصافی‘ قرار دیتی ہیں۔

’ان کی جوانی کے دس سال یعنی پورا عشرہ جیل میں گزر گیا۔ وہ 30 سال کے تھے، جب جیل گئے تھے، اب بابا جان 40 سال کے ہو رہے ہیں۔ ایک بے قصور انسان کو جیل میں ڈالنا کوئی اچھی بات ہے۔ یہ کتنی بڑی ناانصافی ہے۔‘

بحیثیت بھائی بابا جان کیسے تھے؟

شگفتہ نے بتایا کہ وہ سات بہن بھائی ہیں اور بابا جان سب سے بڑے ہیں، جو لڑکیوں کی تعلیم اور انہیں ہنر سکھانے سمیت زندگی میں آگے بڑھانے کے خواہاں تھے۔

بقول شگفتہ: ’وہ ہمیشہ ہمیں اپنے ساتھ لے جاتے تھے، چاہے کوئی بھی سیاسی سرگرمی ہو۔ ہم ان کے ساتھ کھیلتے بھی تھے۔ انہوں نے ہمیں تیراکی بھی سکھائی۔ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے یہ سرگرمیاں بہت مشکل ہوتی ہیں۔‘

’میں اپنے ساتھ بازار جانے کے لیے کسی بھائی کو کہتی تھی تو وہ (بابا جان) ہمیں یہی کہتے تھے کہ ہم نے آپ کو پڑھایا ہے، آپ خود جائیں، اپنا کام خود کریں۔ شاید بابا جان کو ان چیزوں کا ہم سے زیادہ اندازہ تھا، اس لیے وہ ہمیں تیار کر رہے تھے کہ معاشرے میں آپ لوگوں نے اکیلے بھی لڑنا ہے۔‘

شگفتہ نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی خود پوزیشن ہولڈر رہے ہیں، انہوں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی اور پھر سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور چھوٹا موٹا کاروبار کرکے بہن بھائیوں کو پڑھا رہے تھے۔ ’میں انٹر میں تھی جب بابا جان کے ساتھ 2011 میں یہ واقعہ ہوا۔ بابا جان کی یہ خواہش تھی کہ وہ مجھے آگے پڑھائیں گے، لیکن بدقسمتی سے ان کو اس کیس میں پھنسایا گیا تو مجھے ملازمت کرنی پڑی۔ 18، 19 سال کی عمر میں، میں نے ملازمت شروع کی اور چھوٹی موٹی نوکری کرکے بہنوں کو پڑھایا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شگفتہ نے بابا جان کی انتخابی سرگرمیوں، ان کے مقدمے کے حوالے سے عدالتی کارروائی اور اپیلوں سے متعلق بھی بتایا۔ وہ اپنے بھائی کو کھلی فضاؤں میں دیکھنا چاہتی ہیں۔

بقول شگفتہ: ’ہر انسان کی زندگی قیمتی ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایک انسان کی قیمتی زندگی کو اس طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اسے ضائع نہ کرے۔ حضرت علی کا قول ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت نہیں چل سکی۔ ظلم کا راج انشاء اللہ ختم ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان