گلگت بلتستان الیکشن: ووٹرز کے دل میں کیا ہے؟

گلگلت بلتستان کی فضاؤں میں الیکشن کی صدائیں گونج رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں کے لوگ 15 نومبر کو کس کا انتخاب کریں گے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اسی سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی۔

'عمران خان بہت پیارا ہے۔۔۔ پہلے ہم نے ان (دوسری پارٹی) کو ووٹ دیا، ہم نے کہا کہ یہ پل بنانا ہے، لیکن وہ نہیں بنا، اس لیے اب ہم عمران خان کو ووٹ دیں گے۔'

81 سالہ نونہال صاحب سے میری ملاقات وادی ہنزہ میں واقع حسینی برج سے واپسی پر ہوئی۔وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے گھر کی طرف جارہے تھے جب میں نے انہیں روک کر 15 نومبر کو ہونے والے گلگت بلتستان کی دستور ساز اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہی۔

روایتی رنگین ٹوپی پہنے ان کی اہلیہ تو شرما کر ایک طرف ہوگئیں لیکن نونہال صاحب بات کرنے پر راضی ہوگئے اور نہایت ہی پرسکون اور میٹھے انداز میں نہ صرف وزیراعظم عمران خان سے اپنی محبت کا اظہار کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ 'جو پاکستان سے باہر ہیں، ان کو ہم ووٹ نہیں دے سکتے، ایسے کام نہیں چلے گا۔'

ان کا اشارہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جانب تھا، جو علاج کی غرض سے گذشتہ برس نومبر سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔

نونہال صاحب کے منہ سے وزیراعظم کے لیے محبت بھرے الفاظ سن کر میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ صرف نوجوان ہی نہیں بعض بزرگ بھی عمران خان کے بڑے مداح ہیں۔

تھوڑا آگے بڑھی ہی تھی کہ ایک ڈرائی فروٹ سٹال پر ہنزہ اَپر، گوجال کے رہائشی علی اکبر نظر آئے، جب ان سے بات کی تو وہ بھی پاکستان تحریک انصاف کے 'شدید' فین نظر آئے۔

42 سالہ علی اکبر نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا اور اس مرتبہ بھی وہ پی ٹی آئی کو ہی ووٹ دیں گے۔ 'ہمیں ہر چیز میں دیانت اور شفافیت چاہیے۔ پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ ن ہو یا کوئی اور سب کرپشن سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں کسی سے کوئی توقع نہیں ہے، ہمیں صرف اور صرف عمران خان چاہیے۔'

علی اکبر کا مزید کہنا تھا کہ وہ ووٹ پی ٹی آئی کو ہی دیں گے، چاہے کتنی ہی مہنگائی کیوں نہ ہوجائے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا: 'مہنگائی ہوئی کیوں؟اس کی وجہ ہی یہی کہ ہے کہ انہوں نے (اپوزیشن جماعتوں نے) ہر چیز کا بیڑہ غرق کر دیا تھا۔'

ہنزہ، گوجال سے تعلق رکھنے والے نوجوان رحمان کریم بھی اتفاق سے پی ٹی آئی کے ہی مرید نکلے، جنہیں امید تھی کہ عمران خان کی جماعت نہ صرف گلگت بلتستان کے انتخابات میں جیتے گی بلکہ کام بھی کروائے گی۔

لیکن 'محبت اور عقیدت' کی یہ کہانی ہر جگہ ایک سی نہیں تھی۔۔۔! پتھریلے پہاڑی راستوں پر جیپ میں سفر کرکے جب ہم نومل گاؤں سے ہوتے ہوئے نلتر وادی پہنچے تو یہاں ہمیں دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کے پوسٹرز اور بینرز بھی دکھائی دیے۔

وہ منظر تو خاص طور پر دیکھنے والا تھا جب ایک زمانے میں کراچی میں اثر رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے جھنڈوں سے مزین دو گاڑیاں ہمارے برابر سے گزریں تو گاڑی میں بیٹھے اشخاص نے بطور خاص وکٹری کا نشان بنایا۔

گاؤں نلتر بالا کے رہائشی ازبر گجر پی ٹی آئی حکومت سے شدید نالاں نظر آئے اور مہنگائی اور بجلی نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں وہاں کسی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

'ہم کوئی انسان ہیں یا جانور ہیں۔ جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو ایک کہتا ہے میں کام کرتا ہوں، دوسرا کہتا ہے کہ میں کرتا ہوں۔ جب مطلب پورا ہو جاتا ہے سب کچھ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا: 'پیپلز پارٹی کی حکومت اچھی تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی بہت اچھی تھی۔ انہوں نے ہمارے لیے کام کیا۔ غریبوں کو روٹی اور کھانے پینے کی چیزیں عام مل رہی تھیں۔ بے روزگاری بھی نہیں تھی۔ اس الیکشن میں ہم پیپلزپارٹی کو ووٹ دیں گے یا ن لیگ کو دیں گے لیکن پی ٹی آئی کو کبھی نہیں دیں گے۔'

نلتر بالا کے ہی رہائشی صابر خان گذشتہ 20 سال سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سپورٹر تھے، لیکن اس الیکشن میں وہ ایک آزاد امیدوار کو ووٹ دینے جارہے ہیں کیونکہ بقول صابر انہیں 'پیپلز پارٹی سے کوئی توقع نہیں رہی۔'

انہوں نے بتایا کہ چونکہ 'وہ (آزاد امیدوار) اس علاقے کے ہی رہنے والے ہیں، تو وہ ہمارے گاؤں میں ہائی سکول، کالج اور ہسپتال کی تعمیر وغیرہ کے مسائل حل کروائیں گے۔'

ہنزہ کے رہائشی شعبان علی بھی ایک آزاد امیدوار کو ووٹ دینے جارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا: 'اس سے پہلے جو بھی آیا اس نے سب اپنے لیے کیا، لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔'

عمومی تاثر ہے کہ پاکستان میں خواتین کی اکثریت الیکشن کی گہما گہمیوں سے کچھ دور ہی نظر آتی ہے، یہی رجحان مجھے گلگت بلتستان میں بھی نظر آیا، جہاں باوجود اس کے کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہایت سرکردگی سے کاروبار اور دکانیں چلاتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن سیاست اور انتخابات میں ان کی کچھ زیادہ دلچسپی نظر نہیں آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں نے وہاں بہت سی خواتین سے بھی حالیہ الیکشن کے بارے میں ان کی رائے جاننا چاہی لیکن انہوں نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا۔

تاہم غذر سے تعلق رکھنے والے خاتون شاہدہ بانو نے اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیا، جن کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کریں گی۔

انہوں نے بتایا: 'اس بار میں الیکشن میں اتنی فعال نہیں ہوں کیونکہ آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ پسماندہ علاقے کے لوگوں کو ہر طرح سے نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اس لیے میں ووٹ نہیں ڈال رہی ہوں کیونکہ ہم جس پارٹی کو سپورٹ کرتے ہیں وہاں سے ہمیں کوئی سہولت نہیں مل پا رہی تو پھر ووٹ کس چیز کا؟'

گلگلت بلتستان کی فضاؤں میں الیکشن کی صدائیں بڑے زور و شور سے گونج رہی ہیں۔ جہاں بڑی سیاسی جماعتوں نے کمر کس رکھی ہے، وہیں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی قسمت آزما رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اپنے ووٹ کے ذریعے کس کا انتخاب کریں گے اور اس سوال کے جواب کے لیے مجھ سمیت سبھی کو الیکشن کے نتائج کا انتظار ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست