’الف سے ایٹم، ب سے بم‘۔۔۔ گذشتہ دو ہفتوں سے مشرقی سرحد کے دونوں جانب بسنے والے کروڑوں بچوں کی الف، ب یہی ہے۔ جنگ و جدل کے اس ماحول میں جلتی کا تیل دونوں اطراف کا میڈیا ڈال رہا ہے۔ ’ایٹم‘ کے آتش فشاں پر بیٹھی سوا سے ڈیڑھ ارب آبادی جنگ کا ایندھن بننے کی منتظر ہے۔ امن کی بھاشا ناپید اور ’جدل‘ کی لغت بے تحاشہ ہے۔
دنیا کی نظریں ان دو جوہری ممالک پر ہیں اور دوسری جانب ایک بڑی ریاست دنیا کی تیسری بڑی معیشت اور سب سے بڑی جمہوریت کا پاسدار انڈیا خطے کو جنگ میں دھکیلنے کے لیے بےتاب۔
پہلگام واقعے نے بلاشبہ انڈیا ہی نہیں پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک بے یقینی ہے جو ماحول پر چھائی ہے۔ پاکستان انڈیا سٹاک مارکیٹیس مندی کا شکار ہیں، ایک دوسرے کی فضائی حدود بند جبکہ انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے سے نکلنے کے یک طرفہ فیصلے نے ’پانی‘ پر ’جلتی‘ کا کام کیا ہے۔
پاکستان بھی بحری، فضائی اور ہر طرح کے تجارتی راستے مسدود کر کے اپنی سی دھمکی لگا رہا ہے۔ نفرت بک رہی ہے اور سوداگر دامن پھیلائے ہر سو تیار ہیں۔
میڈیا وار فئیر کا دور ہے سو ہر سو ہیجان ہے جبکہ ہمارے پڑوس کی ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، چند ایک کے سوا سب جنگی جنون کا شکار ہیں اور ہر رات پاکستان کو خدانخواستہ تباہ کر کے سوتے ہیں اور پھر صبح سویرے اسی کام پر جت جاتے ہیں۔
آگ نکالتے منہ اور شعلہ اگلتی زبانیں ہمہ وقت دوزخ کا نظارہ پیش کر رہی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ پہلگام واقعے کا فائدہ کس کو ہے؟ اگر انڈیا اس کا بینفشری نہیں تو بھی اس کے فائدے کے نقصان کا شکار ضرور ہے۔
خدشہ ہے کہ کوئی تیسری قوت اس صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی ہے تاکہ پاکستان اور ایران اس لپیٹ میں آئیں جس کا شکار مشرق وسطیٰ ہے۔ انڈیا بہانہ ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران صورت حال کو بھانپ کر ثالثی میں کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ پہلگام حملے کے فوری یعنی چند لمحوں بعد ہی انڈین میڈیا ریاست سے پہلے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا اس معاملے پر دو ہفتے گزر جانے کے باوجود کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا؟ کیا وجہ ہے کہ انڈیا کا ہر پراپیگنڈا ماضی کے برعکس اس بار عالمی میڈیا پر سر چڑھ کر نہیں بول رہا۔
پاکستان کو پہلگام واقعے سے جوڑ بھی دیں تو پاکستان کو کیا فائدہ ہوا؟ لفظی جنگ سے نکلیں تو حقیقت میں پاکستان کی کمزور معیشت چند روز کی جنگ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب پانی کی کمی کا شکار پاکستان کسی صورت آبی جارحیت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تقسیم شدہ معاشرہ گو اس وقت یک جاں ہے مگر پیٹ جڑی معیشت دل سے کیے فیصلوں پر عمل کیسے کر سکتی ہے۔
معیشت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کی چھری تلے ہے اور کسی طور آزاد فیصلے نہیں کر سکتی وہ کیسے جنگ کی حمایت کر سکتی ہے۔ البتہ اس جنگی ماحول اور ترانوں کی گونج میں پاکستان کی جنتا فوج کے ساتھ کھڑی ہے جو قومی یک جہتی اور حب الوطنی کا نتیجہ بن رہی ہے تاہم قوم کو جذباتی نعروں کی نہیں بلکہ ہوش مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔
کیا ہم تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں یا کسی نئی صف بندی کا اشارہ ہے۔ چین کی پاکستان کے ساتھ غیر مشروط حمایت اور حال ہی میں نئے فضائی دفاعی نظام کی ڈیل کی شنید کسی اور طرف اشارہ کر رہی ہے۔ انڈیا کے براہموس کا ہدف یقینی طور پر پاکستان نہیں لیکن پاکستانی شاہین اور ابدالی کا ہدف یقینی طور پر انڈیا ہی ہے۔
چین کا یوں پاکستان کے سائے کے طور پر کھڑاہونا یہ پیغام ہے کہ پاکستان کا دفاع دراصل چین کا دفاع اور پاکستان پر حملہ چین پر حملہ ہے۔ یہ ’بفر زون‘ چین کے لیے انتہائی اہم ہے۔ چین اپنی غیر جذباتی سفارت کاری کے برعکس جذباتی طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے جو معنی رکھتا ہے۔ کیا یہی وجہ ہے کہ انڈیا اب تک پاکستان پر حملہ نہیں کر سکا؟ اگر محدود حملہ کیا بھی گیا تو اندیشہ ہے کہ ایسا محض عوامی حلقوں کے دباؤ کے تحت کیا جا سکتا ہے۔
یہی نہیں ترکی کی جانب سے بھی پاکستان کی غیر مشروط حمایت اور جنگی بحری بیڑے کا ’خیر سگالی‘ طور پر کراچی پہنچنا خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
امریکہ کی جانب سے پہلگام حملے پر مجموعی ردعمل متوازن ہے۔ امریکی سیکرٹری خارجہ مارکو روبیو پاکستان اور انڈیا پر بات چیت کے ذریعے حل نکالنے اور براہ راست رابطوں پر زور دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے فوری مشیر قومی سلامتی کا تقرر کیا ہے، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم ملک کی تقرری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ انہیں مغربی حلقوں میں احترام سے دیکھا جاتا ہے جبکہ پاکستان یہ پیغام بھی دے رہا کہ بات چیت سلامتی کے لینز سے ہی ہو گی۔
سوا ارب سے زائد آبادی اب چند فیصلہ سازوں کے رحم و کرم پر ہے کہ کس کے ہاتھ سے کون سا بٹن کب دب جائے۔ کاش امن کا بھی کوئی بٹن ہو جسے دبا دیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔