پشاور: کیا واقعی پولیو ویکسین سے بچوں کی حالت بگڑی؟

گذشتہ روز پشاور کے ایک نجی سکول سے رپورٹس سامنے آئیں کہ کچھ بچوں کی حالت مبینہ طور پر پولیو ویکسین پینے کی وجہ سے غیر ہو گئی۔ اس دعوے میں کس حد تک حقیقت ہے؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال  کے ترجمان کے مطابق یہاں 5 ہزار سے زائد بچوں کو لایا گیا۔ تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

’میرے بیٹے کو سکول میں پولیو ویکسین پلائی گئی، جس کی وجہ سے اسے پیشاب میں خون آنے کی شکایت ہوئی، جس پر اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچا دیا گیا۔‘

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں داخل اپنے چھ سالہ بیٹے کے ساتھ موجود سلیم الرحمٰن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ پولیو ویکسین پلانے سے ہوا ہے۔‘

خیبر پختونخوا میں پیر (22 اپریل) سے پولیو مہم کا آغاز ہوا، تاہم دارالحکومت پشاور کے علاقے ماشوخیل میں واقع ایک نجی سکول سے رپورٹس سامنے آئیں کہ کچھ بچوں کی حالت  مبینہ طور پر پولیو ویکسین پینے کی وجہ سے غیر ہوگئی ہے، جنھیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق واقعے کے بعد مشتعل افراد نے ماشوخیل میں واقع بنیادی صحت مرکز کے دو کمرے بھی نذر آتش کر دیے۔

تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر صحت اور پولیو پروگرام کے عہدیداران اس بات کی نفی کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر سے جاری ایک بیان میں سینٹر کے کوآرڈینیٹر کامران آفریدی نے بتایا کہ ’پولیو مہم کے دوران پلائے جانے والے قطرے محفوظ ترین ہیں، جن کے کوئی منفی اثرات نہیں اور دنیا بھر میں یہی قطرے پلائے جاتے ہیں۔‘

کامران آفریدی کے مطابق: ’پشاور کے کچھ سکولوں میں بچوں کی مبینہ بے ہوشی کی وجہ پولیو ویکسین کو قرار دینا حقائق کے بر عکس اور گمراہ کن ہے۔‘

دوسری جانب صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر ہشام انعام اللہ خان نے شہر کے مختلف ہسپتالوں کے دورے کے بعد انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے کی جانچ پڑتال کرے گی۔

ان کا کہنا تھا: ’صوبائی حکومت نے خود پولیو ویکسین نہیں بنائی بلکہ عالمی ادارہ صحت کی منظور شدہ پولیو ویکسین بچوں کو پلائی گئی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن بچوں کو ہسپتال لایا گیا، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

’25000 سے زائد بچوں کو ہسپتال لایا گیا‘

لیڈی ریڈنگ ہسپتال (ایل آر ایچ) کے ترجمان کے مطابق یہاں 5 ہزار سے زائد بچوں کو لایا گیا تھا، اسی طرح حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں 3 ہزار سے زائد جبکہ صوبے کے تیسرے بڑے سرکاری سپتال خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں لائے گئے بچوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد رہی۔

صوبائی وزیر صحت کے مطابق کُل ملا کر 25 ہزار سے زائد بچے شہر کے مختلف ہسپتالوں میں لائے گئے جن میں سے بیشتر کی حالت بہتر تھی اور انھیں گھر بھجوا دیا گیا۔

ایل آر ایچ ترجمان کے مطابق زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو ڈر اور خوف کی وجہ سے ہسپتال لائے کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ پولیو  ویکسین کی وجہ سے بچوں کی حالت خراب ہوئی۔

ایل آر ایچ کے ایمرجنسی وارڈ میں موجود تین بچوں کے والد نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مجھے ایک دوست نے فون پر کہا کہ اگر بچوں کو آج پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں تو انہیں فوراً ہسپتال پہنچاؤ۔‘

انھوں نے بتایا: ’مجھے یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ کچھ علاقوں میں درجنوں بچے پولیو قطرے پلانے سے انتقال کر گئے ہیں اور اسی ڈر سے میں نے یہ مناسب سمجھا کہ بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں۔‘

تاہم محکمہ پولیو اور وزیر صحت کے مطابق اس سارے معاملے میں کسی بھی بچے کی موت واقع نہیں ہوئی ہے۔

بڈھ بیر کے رہائشی مظور احمد نے بتایا کہ ان کی بیٹی جب سکول سے گھر آئی تو وہ سر درد اور قے آنے کی شکایت کر رہی تھی۔ ’میں نے بیٹی کو فوراً ہسپتال پہنچا دیا لیکن ابتدائی طبی امداد کے بعد اسے چھٹی دے دی گئی۔‘

ہسپتال کے ایمر جنسی گیٹ کے سامنے لوگوں کا ہجوم تھا، ہر کوئی جلدی میں اپنے بچوں کو گاڑیوں سے اتار کر ایمرجنسی وارڈ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بچوں کو رکشوں، ایمبولینسوں اور موٹرسائیکلوں پر ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا۔

کچھ لوگ حکومت اور پولیو پروگرام کے خلاف نعرہ بازی بھی کر رہے تھے جبکہ ان میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے کو آئندہ کے لیے پولیو ویکسین نہ پلانے کی تر غیب بھی دے رہے تھے۔

ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹرز کیا کہتے ہیں؟

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں تعینات ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھوں نے کچھ بچوں کو طبی امداد فراہم کی جو قے، پیشاب میں خون اور پیٹ خراب ہونے کی شکایت کر رہے تھے۔

مذکورہ ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسئلہ واقعی پولیو ویکسین کی وجہ سے ہوا تھا لیکن حکومت اور محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداران کو چاہیے کہ ان علاقوں میں پلائی جانے والی ویکسین کی جانچ پڑتال ضرور کروائیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کہ زیادہ تر والدین بچوں کو صرف ڈر کی وجہ ہسپتال لائے تھے، انھوں نے درجنوں ایسے بچوں کو دیکھا جن کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں تھا لیکن وہ ڈرے اور سہمے ہوئے نظر آرہے تھے۔

زیادہ رش کی وجہ سے ہسپتالوں میں روٹین میں آنے والے دیگر مریضوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کچھ ادویات کی کمی کی بھی شکایات سامنے آئیں۔

کچھ بچوں کے والدین کو باہر سے انجکشن خرید کر لانے کی بھی ہدایت کی گئی۔

حکومت کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟

پیر کی شام صوبائی چیف سیکریٹری محمد سلیم خان کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی قسم کے ’جعلی پروپیگنڈے‘ کے باوجود انسداد پولیو مہم کو جاری رکھا جائے گا۔

اجلاس میں وزیر معاون برائے انسداد پولیو بابر عطا نے بھی شرکت کی اور پولیو ویکسین کی وجہ سے بچوں کی حالت غیر ہونے کو افواہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کوئی بھی بچہ پولیو کے قطروں کی وجہ سے کسی قسم کے مسئلے کا شکار نہیں ہوا۔

بچوں کو بیمار دکھانے کی جعلی کوشش کرنے والا شخص گرفتار

دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے بچوں کو بیمار دکھانے کی جعلی کوشش کرنے والے ولی محمد نامی ایک شخص کو حراست میں لیا ہے، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

وزیر معاون برائے انسداد پولیو بابر عطا کو بھی لوگوں نے ٹیگ کرکے اس شخص کی ویڈیو شیئر کی جس میں وہ بچوں کو زبردستی بستر پر لیٹنے کے لیے کہہ رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان