آج کل جس تیزی سے آن لائن خریداری کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی ویب سائٹس خود کو آن لائن شاپنگ سٹور کے طور پر متعارف کرکے خریداروں کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ، سوشل میڈیا پر کسی نے ایک معروف سامان لے جانے والی کمپنی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ کمپنی نےانہیں اصل آرڈر کی جگہ پرانے استعمال شدہ کپڑے ارسال کیے ہیں۔ اس ویڈیو سے زیادہ پارہ ان صارفین کا چڑھا جو خود ایسے کسی آن لائن فراڈ کا شکار ہوئے تھے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی اس مخالفت کے بعد متعلقہ کمپنی نےبھی ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے وضاحت دی کہ دراصل کسی بھی ارڈر کا معاملہ خریدار اور فروخت کرنے والے ویب سائٹ کے درمیان ہوتا ہے، اور کوئی سامان لے جانے والی کمپنی اس کی ذمہ دار نہیں ہوتی۔
آن لائن فراڈ کے حوالے سے تقریباً ہر دوسرے شخص کے پاس کوئی نہ کوئی قصہ سنانے کو ضرور ہوتا ہے، تاہم بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آن لائن خریداری کرتے وقت وہ کون سے سات سنہرے اصول ہیں جنہیں مدنظر رکھ کر جعلسازیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
1- متعلقہ ویب سائٹ کے بارے میں جانیے
آن لائن خریداری کے ماہر حضرات آن لائن جعلسازیوں سے بچنے کے لیے جو اصول تجویز کرتے ہیں ان میں ایک اصول یہ ہے کہ کسی بھی سامان کا آرڈر دینے سے پہلے متعلقہ ویب سائٹ یا برانڈ کے بارے جاننا بہت ہی اہم ہے۔ اگر یہ کوئی معروف کمپنی ہے یا مالکان کو آپ ذاتی طور پر جانتے ہیں تو فراڈ کے امکانات کم تر ہوں گے۔ تاہم اگر یہ کوئی غیر معروف نام یا کمپنی ہے تو اس حوالے سےمندرجہ ذیل دیگر نکات کا خیال رکھ کر آپ اپنی رقم ڈوبنے سے بچا سکتے ہیں۔
2- مشہور کمپنی کا ہم نام
آرڈر دینے سے قبل اس بات کابھی خیال رکھنا چاہیے کہ آپ جس آن لائن سٹور سے خریداری کر رہے ہیں کہیں وہ آپ کے من پسند مشہور برانڈ کا نام تو استعمال نہیں کر رہا۔ اکثر اوقات غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ کسی سٹور نے خود کو معروف برانڈ کے طور پر پیش کیا ہوتا ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لیے پہلے انٹرنیٹ پر معلومات حاصل کرنے سے اصل اور نقل کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
3- رابطہ نمبر یا ایڈریس
جعلسازی سے پاک آن لائن سٹورز ہمیشہ اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ اپنا رابطہ نمبر اور ای میل ایڈریس بھی پیش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی ریٹرن پالیسی،رازداری کی پالیسی اور شپنگ کی معلومات کی تفصیل کے ساتھ رقم کی واپسی کا طریقہ کار بھی لکھا ہوتا ہے۔ جعلساز ایسی معلومات لکھنے سے گریز کرتے ہیں جہاں صارفین عام طور پر توجہ نہیں دیتے۔
کسی ویب سائٹ کی اصلیت جاننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے فراہم کردہ نمبر پر کال کرکے حقیقی شخص سے رابطہ کیا جائے، اور تسلی کی خاطر ان سے وہ سوالات کیے جائیں جو ان کے صفحے پر موجود نہیں ہیں۔
4- تنقید اور تبصرے پڑھیے
کسی بھی آن لائن سٹور سے خریداری کرنے سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ متعلقہ سٹور کی ساکھ کے بارے میں دوسرے خریداروں کے تبصرے پڑھ لیے جائیں۔ یہ تبصرے (ریوئیوز) ان لوگوں کے ہوتے ہیں جن کا متعلقہ کمپنی کے ساتھ اچھا یا برا تجربہ ہوا ہو۔ منفی یا مثبت کسی قسم کے ریویوزکا دستیاب نہ ہونا کسی کمپنی کے ناقابل اعتبار ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔علاوہ ازیں، اگر کسی غیر معروف کمپنی کے حوالے سے صرف مثبت تبصرے ہی دستیاب ہوں تو ایسا کرنا کسی کمپنی کو مشکوک بناتا ہے۔
5- بہت زیادہ معلومات دینے سے انکار کریں
آن لائن خریداری کے دوران صرف آپ کا فون نمبر اور گھر کا پتہ ہی درکار ہوتا ہے، اگر کوئی کمپنی آپ سے آپ کے بینک کے معلومات سمیت دیگر ذاتی معلومات کا مطالبہ کرے تو آپ کا شک کرنا جائز بنتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
6- صرف ٹیگ کردہ تصاویر پر اعتماد کریں۔
اکثر آن لائن خریداری کرتے وقت خطرہ رہتا ہے کہ جو تصاویر کسی سامان کو فروخت کرنے کے لیے لگائی گئی ہیں وہ ان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں، بلکہ کسی اور ویب سائٹ سے چرائی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سامان آپ کو ملتا ہے تو وہ آپ کی پسند کردہ تصاویر کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے متعلقہ سٹور سے ٹیگ کردہ تصاویر کا مطالبہ کریں۔
7- ناقابل یقین طور پر سستی ڈیل
آن لائن خریداری کرنے والے تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کسی آن لائن سٹور پر کسی چیز کی قیمت ناقابل یقین حد تک کم ہو تو یہ ایک فراڈ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اصلیت جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر اس شئے کی اصل قیمت معلوم کی جا سکتی ہے۔
آن لائن خریداری کی شکایات کہاں درج کی جائیں؟
پاکستان میں آن لائن خریداری کے حوالے سے تنازعات اور شکایات حل کرنے کے لیے پچھلے کئی سالوں سے مختلف اضلاع میں کنزیومر کورٹس قائم ہیں۔ اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کنزیومر عدالتیں صارفین کی شکایات حل کرنے اور فوری انصاف دلوانےکے لیے قائم کی گئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان عدالتوں کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہاں آپ بغیر کسی وکیل کے اپنا مقدمہ خود لڑ سکتے تھے۔
’وقت کے ساتھ اب ان عدالتوں میں بھی صارفین اپنا مقدمہ وکیل کے بغیر حل نہیں کر سکتے، لہذاوکیل کی فیس کے علاوہ انہیں لمبا عرصہ انتظار بھی کرنا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر کنزیومر ان عدالتوں کا رخ نہیں کرتے۔‘
انہوں نے تجویز دی کہ اگر حکومت پاکستان کنزیومر کورٹس کی ذمہ داری محتسب اعلی کے دفاتر کو سونپ دے تو اس سے روزمرہ کے مسائل جلد حل ہونے میں بہت بڑی ریلیف مل سکتی ہے۔