پشاور میں بڑا آن لائن فراڈ: ’محنت کی کمائی منٹوں میں ڈوب گئی‘

صوبہ خیبر پختونخوا میں سینکڑوں متاثرین سامنے آئے ہیں جنہوں نے ایک ویب سائٹ کے ذریعے سرمایہ کاری لیکن اب ویب سائٹ اور اس کا دفتر بند ہو چکا ہے۔

پشاور سے کام شروع کرنے والی اس کمپنی میں سینکڑوںلوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی۔

‘میں نے تین سال تک دوستوں کے ساتھ کمیٹیاں ڈال کر دو لاکھ روپوں کا بندوبست کیا۔ بیٹے کی بیماری کی وجہ سے انہی دو لاکھ روپوں کی ایک آن لائن بزنس میں سرمایہ کاری کی لیکن اب اس بزنس کی ویب سائٹ بھی بند ہے اور ان کے ذمہ داران بھی روپوش ہو گئے ہیں۔’

یہ کہنا تھا آن لائن بزنس کے مبینہ فراڈ کے شکار حماد خان کا، جن کے دو لاکھ روپے کی سرمایہ کاری یک دم ڈوب گئی اور ان کو اب سمجھ نہیں آرہا کہ ان کی سرمایہ کاری کا کیا ہوگا۔

یہ مبینہ فراڈ کیا ہے؟

متاثرین کے مطابق پے سلیش (pslashuk.com) نامی ویب سائٹ کا سب سے پہلے آغاز پشاور سے ہوا تھا۔ متاثرین الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ایک نام نہاد آن لائن سرمایہ کاری کی کمپنی تھی، جس کے ایجنٹس مبینہ طور پر لوگوں کو سرمایہ کاری پر سات سے 20 فیصد تک منافع دیتے تھے۔

اس سکیم میں سینکڑوں لوگوں نے سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ نام نہاد کمپنی کی ویب سائٹ پر سرمایہ کار کو رجسٹرڈ ہونا پڑتا تھا اور وہ اپنی مرضی کے مطابق پیسے جمع کراتے تھے۔ کمپنی نے پشاور کے ڈینز ٹریڈ سینٹر میں اپنا دفتر کھول رکھا تھا اور ان کے مختلف ایجنسٹس یہاں لوگوں کو اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دیتے تھے۔

حماد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ کمپنی کے ایجنٹس انہیں بتاتے تھے کہ کمپنی سکیورٹی ایکسچینج آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے اور کوئی بھی بلا جھجک اس میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘میرے چھ سالہ بیٹے کو مرگی اور پاؤں کی کمزوری کی بیماری ہے اور وہ چل نہیں سکتا۔ میں نے اس غرض سے اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی کہ بیٹے کے علاج کے پیسے جمع ہو سکیں گے لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ میری محنت کی کمائی ڈوب جائے گی۔’

انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سپر سٹور میں سیلز مین ہیں اور ان کی تنخواہ اتنی نہیں کہ گھر کا خرچہ پورا ہو سکے، اسی وجہ سے دوستوں کے مشورے پر اس نام نہاد کمپنی میں سرمایہ کاری کی۔ حماد سے جب پوچھا گیا کہ سرمایہ کاری کرنے کے بعد سرمایہ کار کو کیا کرنا ہوتا تھا، تو انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ویب سائٹ پر موجود کچھ مختصر اشتہارات دیکھنے ہوتے تھے اور اسی حساب سے ان کو روزانہ کے حساب سے ڈالرز میں پیسے ملتے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد وہ ان کے دفتر جا کر ان کے ایجنٹس سے اپنے پیسے وصول کرتے تھے، ہر دن اشتہار دیکھنے کے حساب سے پیسے اور پوائنٹس ملتے تھے، اس پورے نظام میں ماہانہ کے حساب سے بھی سرمایہ کاروں کو پیسے ملتے تھے۔

محمد نور کا تعلق پشاور سے ہے اور انھوں نے پانچ لاکھ روپے ادھار لے کر اس کمپنی میں سرمایہ کاری کی، وہ اب ڈپریشن کا شکار ہیں۔ نور نے بتایا کہ وہ ایک دیہاڑی دار مزدور ہیں اور جب اس کمپنی کے بارے میں سنا تو اس کے لیے لوگوں سے ادھار لے کر پانچ لاکھ روپے لگائے اور 25 لاکھ روپوں کی دوسرے لوگوں کی ذمہ داری لی، جس سے انہیں ماہانہ تقریباً 18 ہزار روپے ملتے تھے۔

’باقی لوگوں کی ذمہ داری ایسے لی کہ ان کو میں نے بتایا تھا کہ آپ اتنے روپے لگائیں اور کسی بھی فراڈ یا مسئلے کے نتیجے میں وہ ذمہ دار ہوں گے۔ اب وہی لوگ میرے پیچھے پڑے ہیں لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ ویب سائٹ بھی بند ہے اور نام نہاد کمپنی کے ایجنٹس بھی روپوش ہیں۔’

نور کے مطابق ابھی کمپنی کی ویب سائٹ کھولنے پر ‘ website hacked’ کا پیغام آتا ہے، اس کے علاوہ ویب سائٹ پر کچھ موجود نہیں۔نور سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے سرمایہ کاری کے پیسے کس طریقے سے کمپنی کو دیےتو انہوں نے بتایا کہ پشاور کے کارخانو مارکیٹ میں کمپنی کے ایجنٹس، جن کو ایکسچینجر کہا جاتا تھا، بیٹھتے تھے اور ہم نے ان کو پیسے نقد دیے تھے اور واپسی پر ان کو ویب سائٹ کی ایک آئی ڈی فراہم کی گئی تھی۔

کتنے روپوں کا مبینہ فراڈ ہوا؟

پشاور میں سوشل ورکر ثاقب الرحمٰن اس کیس کے متاثرین کی لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ ثاقب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک صوبے میں 100 سے زائد متاثرین نے ان کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان متاثرین نے 50 ہزار سے لے کر 30 ، 40 لاکھ روپے تک کی سرمایہ کاری کی، لیکن یہ واضح نہیں ایسے متاثرین کتنے ہیں اور کُل کتنے پیسوں کا مبینہ فراڈ ہوا۔

ثاقب نے بتایا کہ کمپنی کے زیادہ تر متاثرین قبائلی ضلع خیبر اور ضلع مہمند سے ہیں، جس میں خواتین بھی شامل ہیں اور جنھوں نے اپنا سونا بیچ کر اس میں سرمایہ کاری کی۔‘ ان متاثرین میں سے بعض نے فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سمیت پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہے، جس میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سمیت سائنس و ٹیکنالوجی کے سیکرٹری، ایف آئی اے، صوبائی حکومت اور اس نام نہاد کمپنی کے خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر وسیم زیب اور ایک رابعہ بتول نامی خاتون کو فریق بنایا گیا ہے۔

پٹیشن میں عدالت سے استدا کی گئی ہے کہ اس کمپنی نے پاکستان کے نیوز چینلز پر اشتہارات بھی چلائے اور خود کو سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ بتا رہے تھے تو کیسے ایک مبینہ جعلی کمپنی کے اشتہارات نیوز چینلز پر چلائے گئے اور لوگوں کو دھوکہ دیا گیا۔

پاکستان میں یہ پہلا ایسا سکینڈل نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اربوں روپوں کے سکینڈلز سامنے آئے، جن میں مشہور ‘ڈبل شاہ’ سکینڈل اور مضاربہ سکینڈل شامل ہیں۔ ان کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں لیکن کئی سالوں بعد بھی متاثرین کے پیسے ریکور نہیں ہو سکے۔ اس ساری صورتحال پر پے سلش کمپنی کے ڈائریکٹر وسیم زیب سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا موبائل نمبر بند ہے۔

پاکستان میں آن لائن سرمایہ کاری کے لیے قوانین کیا ہیں؟

دنیا بھر میں آن لائن یعنیٰ انٹرنیٹ کے ذریعے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے والی کمپنیاں ہیں اور ان سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔تاہم آن لائن کسی بھی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کچھ ضروری معلومات لینا نہایت ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسد بیگ ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والے ادارے میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے سر براہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے فراڈ میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ متاثرین کے لیے قانونی طور پر کوئی سکیورٹی موجود نہیں ہوتی کیونکہ یہ سرمایہ کار کی اپنی مرضی پر کی جاتی ہے-

انہوں نے بتایا کہ کسی بھی سرمایہ کار کے لیے سرمایہ کاری سے پہلے کمپنی کے حوالے سے کچھ ضروری معلومات لینا بہت اہم ہے۔’سب سے پہلے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ،جہاں پاکستان بھر کے کمپنیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں، وہاں جا کر متعلقہ کمپنی کی رجسٹریشن چیک کرنا لازمی ہے۔

’وہ آپ سے سو، دو سو روپے لیں گے اور وہاں آپ کسی بھی کمپنی کے مکمل معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی کی فزیکل موجودگی یعنیٰ کمپنی کا دفتر، سکیورٹی ایکسچینج کے پاس رجسٹریشن سمیت ان کے ایجنٹس کے بارے میں معلومات لینا اہم ہے کہ آیا وہ واقعی ایک قانونی کمپنی چلا رہی ہے یا غیر قانونی ہے۔‘

پے سلش کمپنی کے مبینہ فراڈ کے بارے میں اسد نے بتایا کہ پاکستان میں سائبر کرائم قوانین کے تحت آن لائن فراڈ کی دفعات موجود ہیں جن کے تحت پی ٹی اے کمپنی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اسد کے مطابق حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس قسم کے آن لائن فراڈ کے بارے میں آگاہی دے اور عوام کو آن لائن سرمایہ کاری میں فراڈ سے بچنے کے لیے ضروری معلومات دیں تاکہ لوگوں کے کروڑوں روپے ضائع نہ ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان