بنگلہ دیش نے روہنگیا مسلمانوں کو جزیرے پر منتقل کرنا شروع کر دیا

بیس بسوں میں تقریباً ایک ہزار افراد کو ساحلی شہر چٹاگانگ روانہ کیا گیا جہاں سے انہیں اس جزیرے پر بھیجا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیوں کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کو زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔

ایک روہنگیا خاتون اپنے بھائی سے فون پر روتے ہوئے بات کر رہی ہیں جو ٹرانسٹ کیمپ میں ہیں اور اس جزیرے پر بھیجے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

بنگلہ دیش نے روہنگیا پناہ گزینوں کو ایک ایسے جزیرے پر منتقل کرنا شروع کر دیا ہے جو سمندری طوفانوں اور سیلاب کا آسان ہدف بن سکتا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق ان سینکڑوں افراد کو زبردستی منتقل کیا جا رہا ہے۔

بنگلہ دیش کے جنوب مشرقی علاقوں میں تقریباً دس لاکھ روہنگیا پناہ گزین سال 2017 میں میانمار میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد سے کیمپوں میں مقیم ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر لوگ واپس نہیں جانا چاہتے جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت ان کیمپوں میں منشیات فروش گینگز اور انتہا پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے انہیں اس علاقے سے نکالنا چاہتی ہے۔

اس خطے کے پولیس سربراہ انور حسین کے مطابق جمعرات کو کوکس بازار کے علاقے سے بیس بسوں میں تقریباً ایک ہزار افراد کو ساحلی شہر چٹاگانگ روانہ کیا گیا جبکہ جمعہ کو بھی 1600 کے قریب روہنگیا مسلمانوں کو منتقل کیا گیا۔

نیوی اور پولیس کے اہلکاروں کے مطابق چٹاگانگ سے ان پناہ گزینوں کو کشتیوں کے ذریعے جمعے کو جزیرہ بھاشن چار منتقل کیا جائے گا۔

اس جزیرے کا رقبہ 13 ہزار ایکڑ ہے اور یہ حالیہ دہائیوں میں خلیج بنگال میں ابھرنے والی کئی سمندری پٹیوں میں سے ایک ہے۔

بنگلہ دیش کی نیوی نے اس جزیرے پر ایک لاکھ روہنگیا کے لیے رہائش کا بندوبست کیا ہے جبکہ سیلاب سے بچاؤ کے لیے حفاظتی بند بھی تعمیر کیا گیا ہے لیکن مقامی افراد کے مطابق یہ جزیرہ سمندری طوفانوں کے نتیجے میں آنے والی بلند لہروں کی وجہ سے زیر آب آ سکتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق کچھ پناہ گزینوں کو اس جزیرے پر منتقل ہونے پر مجبور کیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایف پی نے جمرات کو کچھ افراد سے بات کی جن کا بھی یہی کہنا تھا۔

اپنے بیٹے اور دیگر رشتہ داروں کو چھوڑنے آئیں 60 سالہ صوفیہ خاتون نے کہا: ’انہوں نے میرے بیٹے کو بہت مارا، حتی کہ اس کے دانت تک توڑ ڈالے کہ وہ جزیرے کو جانے کے لیے تیار ہو جائے۔‘

روتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں اسے اور اس کے خاندان کو ملنے آئی ہوں، اور شاید یہ آخری بار ہو۔‘

17 سالہ حافظ احمد اپنے بھائی اور ان کے خاندان کو خیرباد کہنے آئے تھے۔

انہوں نے بتایا: ’میرا بھائی دو دنوں سے غائب ہے۔ اب ہمیں پتہ چلا کہ وہ یہاں (ٹرانسٹ کیمپ) میں ہے جہاں سے اسے جزیرے پر لے جایا جائے گا۔ وہ اپنی مرضی سے نہیں جا رہا۔‘

اقوام متحدہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اس عمل میں ’شامل نہیں‘ اور اس کے پاس ’کم معلومات‘ ہیں۔

اس کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کو آزادانہ طور پر جزیرے کی ایک رہنے کی جگہ کے طور پر تجزیہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

ادارے نے مزید کہا کہ پناہ گزینوں کو ’منتقل ہونے کے لیے آزاد اور معلومات پر مبنی فیصلہ‘ کرنے  کا حق ہے اور وہاں پہنچ کر ان کو تعلیم اور صحت تک رسائی ہونی چاہیے اور اگر وہ واپس آنا چاہیں تو اس کا بھی حق ہونا چاہیے۔ 

لیکن بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدل مومن نے ان تنظیموں کو اس دعوے کو 'سراسر جھوٹ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس جزیرے پر فراہم کی جانے والی سہولیات کیمپوں میں موجود سہولیات سے بہتر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے تقریباً 23 ہزار خاندانوں کو جزیرہ بھاشن چار منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کیمپوں میں تعداد بہت زیادہ تھی اور یہ افراد اپنی مرضی سے منتقل ہو رہے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں سات روہنگیا ہلاک اور کئی گھر نذر آتش کر دیے گئے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا