روہنگیا بحران کے تین سال: کرونا پناہ گزینوں کی امیدیں توڑ رہا ہے

تین سال پہلے ہمیں یہ امید تھی کہ بین الاقوامی کمیونٹی کی مدد سے وہ ایک معیاری زندگی گزار سکیں اور اپنے گھروں کو واپس جا سکیں، مگر 2020 کرونا وائرس کا نیا خطرہ لے آیا اور جو تھوڑی سی امید تھی، وہ بھی اب ہاتھ سے جا رہی ہے۔

دسمبر 2017 کی اس تصویر میں ایک روہنگیا پناہ گزین خاتون کاکس بازار   کے ایک کیمپ میں موجود ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

میانمار میں ہونے والے ظلم و ستم اور تشدد سے جان بچا کر بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو رواں ہفتے تین سال ہوجائیں گے۔ زیادہ تر پناہ گزین کاکس بازار میں مقیم ہیں، جو اب دنیا کا سب سے بڑا پناہ گزین کیمپ بن چکا ہے اور اس ضلع میں ایسے 34 کیمپوں میں سے ایک ہے۔

تین سال پہلے ہمیں یہ امید تھی کہ بین الاقوامی کمیونٹی ان لوگوں کو ترقی کرنے میں مدد کرے گی تاکہ وہ ایک معیاری زندگی گزار سکیں اور اپنے گھروں کو واپس جا سکیں، مگر 2020 کرونا (کورونا) وائرس کا نیا خطرہ لے آیا اور جو تھوڑی سی امید تھی، وہ بھی اب ہاتھ سے جا رہی ہے۔

امدادی ایجنسیاں ضلع کاکس بازار میں کرونا وائرس کے شدید اثرات کے حوالے سے تنبیہ کرچکی ہیں۔ کیمپوں میں زیادہ رش اور بنگلہ دیش کے پہلے سے کمزور نظام صحت کے باعث پناہ گزین اور میزبانوں دونوں کو اس وبا سے شدید خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش میں ہر دو ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر موجود ہے جبکہ برطانیہ میں ہر 350 افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔

کاکس بازار میں رہنے والے آٹھ لاکھ 60 ہزار پناہ گزین میں سے 31 ہزار 500 ساٹھ سال اور اس سے زیادہ عمر کے ہیں۔ برطانیہ میں ہمارے تجربے سے ہمیں معلوم ہے کہ اس عمر کے افراد کے لیے کووڈ 19 سے شدید بیماری اور موت کا خطرہ اور بھی زیادہ ہے۔

جن بڑی عمر کے پناہ گزینوں کو اس عمر میں اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا ان کے لیے زندگی وبا سے پہلے بھی مشکل تھی۔ ان میں سے اکثر کو ذاتی صحت کے مسائل مثلاً خراب ہوتی نظر، کم ہوتی قوت سماعت اور چلنے پھرنے میں مسائل کے علاوہ اب بھیڑ والے ماحول، صاف پانی اور صفائی کی کمی سے بھی نمٹنا پڑ رہا ہے۔

اب ان کے لیے ایک اور مسئلہ سر اٹھا رہا ہے۔ کیمپوں اور میزبان کمیونٹی میں کرونا وائرس کے کیسوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خدشہ ہے کہ پرہجوم ماحول میں یہ اور بھی تیزی سے پھیلے گا۔

وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نافذ کی گئی پابندیوں کی وجہ سے ان کیمپوں میں ضروری سروسز میں بھی کمی آئی ہے۔ معمر پناہ گزینوں کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ان کے لیے عمر کے مطابق سپورٹ تک رسائی بھی کم ہوگئی ہے۔ ان کے لیے محفوظ جگہ، جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ برطانوی چیریٹی ایج انٹرنیشنل کی مہیا کی گئی ایسی جگہیں ہیں، جہاں بڑی عمر کے افراد آ کر معلومات اور دیگر سروسز جیسے مفت دوائیں، غذائی سپلیمنٹس، فزیوتھراپی اور سائیکوسوشل سپورٹ حاصل کرسکتے تھے۔

بہت سے پناہ گزینوں کے لیے یہ جگہیں اہمیت کی حامل تھیں جہاں وہ آکر آرام کرسکتے تھے یا پھر اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ کچھ گیمز کھیل سکتے تھے۔ ضروری ادویات تو اب بھی فراہم کی جا رہی ہیں مگر اس طرح کی سماجی سرگرمیاں، جو ذہنی صحت کے لیے ضروری ہیں، وہ درست وجہ سے ہی سہی لیکن روک دی گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معمر پناہ گزینوں کی جسمانی اور ذہنی صحت پر وبا کے اثرات کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان میں دو تہائی پنا گزین کا کہنا ہے کہ وہ 'زیادہ تر' پریشان رہتے ہیں۔

71 سالہ جورینا اس احساس کو ایسے بیان کرتی ہیں: 'ہمارے ترپال کے ٹینٹ میں ہلنے کی بھی جگہ نہیں۔ ہم کسی نہ کسی طرح اس جگہ پر رہتے ہیں اور رات کو سوتے ہیں۔ اب کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ہم باہر بھی نہیں جا سکتے، اس لیے ٹینٹ کی دہلیز پر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمیں اس بیماری کا ڈر ہے کہ میرے جیسے بڑی عمر کے لوگوں کا کیا ہوگا۔ ہمارے لیے کیا چیز انتظار کر رہی ہے، ہمیں نہیں پتہ۔'

کئی مثبت اقدامات کے باوجود کرونا وائرس کے دوران پناہ گزینوں کے کیمپوں میں معمر افراد کے لیے حالات مزید خراب ہوئے ہیں، کیونکہ انہیں صاف پانی اور نہانے اور بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ وہ سہولیات جو ہمارے لیے عام ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے انتہائی اہم۔

کھانا، دوائیں اور ٹوائلٹس پناہ گزینوں کے لیے اہم مسائل ہیں۔ ان میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں وبا سے پہلے کے مقابلے میں اب کھانے کو کم مل رہا ہے اور تین چوتھائی کا کہنا ہے کہ پانی اور صفائی کا انتظام کافی نہیں۔

معمر افراد اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ کرونا وائرس سے بچنے کے لیے انہیں ہاتھ دھوتے رہنا ہے اور بڑے اجتماعات میں نہیں جانا، مگر سہولیات کی کمی کے باعث وہ یہ سب نہیں کر پا رہے۔

اس لیے یہ بہت اہم ہے کہ ہم معمر افراد کے تجربے اور باتوں کو سنیں، نہ کہ انہیں بس مسائل کے حل بتاتے جائیں۔ کرونا وائرس سے کامیابی سے بچنے کے لیے ہم سب کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا اور ایک دوسرے سے سیکھنا ہوگا۔

اس وائرس نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اور روزمرہ کی مشکلات ہمارے سامنے لا کھڑی کی ہیں۔ ہم نے برطانیہ میں دیکھا ہے کہ  سماجی دوری قائم رکھنے کے لیے کھلی جگہ کا ہونا اور صحت کی سہولیات جیسے این ایچ ایس اور پانی اور صفائی ستھرائی کی سروسز بیماری اور جراثیموں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ پھر بھی یہاں ہم وائرس کو مکمل طور پر روک نہیں سکے۔

یہ ضروری ہے کہ بین الاقوامی کمیونٹی روہنگیا کے لیے طویل مدتی حل ڈھونڈنے کے لیے کوشاں رہے اور ان کی اور بنگلہ دیش کی مدد کرتی رہے تاکہ یہ مسئلہ اس خطے میں جم نہ جائے اور نہ ہی ایک نسل کہیں کھو جائے۔

اس بحران کو تین سال ہونے پر ہمیں ان سب کا خیال ہونا چاہیے، جو اکثر بھلا دیے جاتے ہیں اور پیچھے چھوڑ دیے جاتے ہیں، خاص طور پر معمر روہنگیا۔

اگرچہ ہماری توجہ اپنے ملک پر کرونا وائرس کے اثرات پر ہے، لیکن ہمیں کاکس بازار جیسی نازک جگہوں میں رہنے والے لوگوں کی ضروریات کو نہیں بھولنا چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اس بحران میں جورینا جیسے لوگ پیچھے نہ رہ جائیں بلکہ مسائل کے حل کا حصہ بنیں۔


یاسمین قریشی بولٹن ساؤتھ ایسٹ سے لیبر پارٹی کی ایم پی ہیں اور شیڈو انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ منسٹر ہیں۔

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر