’قوم جاننا چاہتی ہے اسرائیل کون گیا تھا!‘

پاکستان نے ایک اسرائیلی اخبار میں ایک بڑے مسلمان ملک کے وفد کے تل ابیب کے دورے کی خبر شائع ہونے کے بعد ایسے کسی دورے کی تردید کی ہے تاہم پاکستانی سوشل میڈیا صارفین اب بھی اس بحث میں مصروف ہیں۔

 16 اگست 2020 کو  راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے زیر اہتما م ریلی میں شرکا نے اسرائیل مخالف بینرز اٹھا رکھے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

ایک اسرائیلی اخبار میں حالیہ دنوں میں 'ایک بڑے مسلمان ملک کے وفد کے تل ابیب کے دورے' کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کے بعد پاکستان نے تو سختی سے ایسے کسی دورے کی تردید کر ڈالی ہے مگر پاکستانی سوشل میڈیا پر یہ خبر اب بھی زیر بحث ہے۔

ایک سرکردہ اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ہیوم‘ نے دعویٰ کیا تھا کہ ایشیا کے ایک بڑے مسلمان ملک کے رہنما کے سینیئر مشیر نے تل ابیب کا دورہ کیا ہے اور حکام سے بات چیت کی۔ اخبار نے ملک یا مشیر کا نام نہیں دیا لیکن اتنا واضح کیا کہ اس ملک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی اور مشرق وسطیٰ کے لیے مشیر طاہر اشرفی بھی گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اسی موقف پر قائم تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی سرکاری یا غیرسرکاری دورہ نہ کیا گیا ہے اور نہ ہی دونوں ملکوں کے درمیان رابطے ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا پر کئی دن سے اسرائیل اور پاکستان کے حوالے سے کئی ٹرینڈز چل رہے ہیں جن میں پاکستانی صارفین مبینہ طور پر دورہ کرنے والے اہلکار کو ’غدار‘ اور دیگر نازیبا لقب دے رہے ہیں اور یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان سے کون سا عہدیدار اسرائیل گیا تھا۔

صارف حیدر چوہدری نے سوال کیا: 'پاکستانی قوم جاننا چاہتی ہے کہ پاکستان سے خفیہ طور پر کون اسرائیل گیا اور کیوں؟'

محسن علی نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ 'اسرائیل کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا، یہ ناقابل قبول عمل ہے۔'

عمران اشرف نامی صارف نے اپنی ٹویٹ میں بیلاز نامی یہودی میڈیا آؤٹ لیٹ کی ٹویٹ کا سکرین شاٹ شیئر کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا ایک وفد اسرائیل آیا تھا۔

بیرون ملک مقیم پاکستانی اور سوشل میڈیا پر سرگرماحمد وقاص گورایا نے دعویٰ کیا کہ 'اسرائیل جانے والوں میں وزیر اعظم کے مشیر زلفی بخاری شامل تھے'۔

راجا عبد الوحید کا کہنا تھا کہ 'یہ سوال ہر پاکستانی کو پوچھنا چاہیے۔'

 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ