’ہمیں بھوک لگی ہے‘: دو بچے ماں کی آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے

سوڈان میں بھوک سے انتہائی نڈھال ماں میں اتنی سکت بھی نہ تھی کہ وہ اپنے پانچ اور سات سالہ بچوں کو دفنا سکتی۔ اس نے دونوں کی لاشوں پر گھاس پھوس ڈالی اور جنگل میں چھوڑ آئی۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے یمن، برکینا فاسو اور شمال مشرقی نائجیریا کے بعد جنوبی سوڈان ان چار ممالک میں شامل ہو سکتا ہے جہاں کئی علاقوں کو قحط سالی کا سامنا ہے(اے پی)

جنگ زدہ ملک جنوبی سوڈان میں جھڑپوں سے بچنے کے لیے ایک ہفتے سے جنگل میں ماری ماری پھرنے والی ایک ماں نے اپنے دو بچوں کو بھوک سے بلکتے ہوئے موت کے منہ میں جاتے ہوئے دیکھا۔

کلیلین کینینگ نے روتے ہوئے بتایا کہ کیسے ان کے پانچ سال اور سات سال کے دو بچے بھوک سے نڈھال ہو کر ان سے کھانا مانگتے رہے مگر ان کے پاس انہیں دینے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ خود بھی بھوک سے بے حال ماں نے اپنی آنکھوں کے سامنے مرنے والے بچوں کی لاشوں کو گھاس سے ڈھانپ کر انہیں جنگل میں ہی چھوڑ دیا۔

اپنے بچوں کا سوگ منانے والی 40 سالہ کلیلین اب بھی غذائی امداد کی منتظر ہیں۔ وہ ان 30 ہزار افراد میں سے ایک ہیں جنہیں جنوبی سوڈان کی پائبر کاؤنٹی میں ممکنہ طور پر قحط کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی فوڈ سکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ علاقہ رواں سال دنیا میں قحط کا شکار ہونے والا پہلا خطہ ہوسکتا ہے جب کہ 2017 میں اسی ملک کے دوسرے حصے کو خانہ جنگی کے دوران قحط زدہ قرار دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے یمن، برکینا فاسو اور شمال مشرقی نائجیریا کے بعد جنوبی سوڈان ان چار ممالک میں شامل ہو سکتا ہے جہاں کئی علاقوں کو قحط سالی کا سامنا ہے۔ رواں سال پائبر کاؤنٹی میں پرتشدد واقعات اور بدترین سیلاب سے امدادی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ رواں ماہ لیکوانگول قصبے سے تعلق رکھنے والے سات خاندانوں نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ فروری اور نومبر کے درمیان ان کے 13 بچے بھوک کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔

لیکوانگول کی مقامی حکومت کے سربراہ پیٹر گولو نے کہا کہ انہیں اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ستمبر اور دسمبر کے درمیان آس پاس کے دیہاتوں میں مزید 17 بچے بھوک سے ہلاک ہوئے۔

رواں ماہ ’انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن‘ کی رپورٹ میں ناکافی اعداد و شمار کی وجہ سے اس خطے کو قحط زدہ قرار نہیں دیا جا سکا لیکن یہاں قحط کی سی صورت حال ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم 20 فیصد گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے اور کم از کم 30 فیصد بچے شدید غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔

تاہم جنوبی سوڈان کی حکومت اس رپورٹ کے نتائج کو تسلیم نہیں کر رہی کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ قحط کی صورت میں اسے حکومت کی ناکامی کے طور پر دیکھا جائے گا۔ جنوبی سوڈان کی فوڈ سکیورٹی کمیٹی کے صدر جان پینجچ نے کہا: ’وہ مفروضے لگا رہے ہیں جب کہ ہمارے پاس زمینی حقائق ہیں۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں 11 ہزار افراد فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں جب کہ عالمی فوڈ سکیورٹی کے ماہرین کی نئی رپورٹ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ ملک کی 60 فیصد آبادی یا تقریباً 70 لاکھ افراد کو اگلے سال شدید غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جنوبی سوڈان پانچ سالہ خانہ جنگی سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ فوڈ سکیورٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھوک کے بحران میں اضافے کی وجہ مسلح لڑائی ہے۔ مسلح جھڑپوں میں حکومت اور حزب اختلاف کی مبینہ طور پر حمایت یافتہ گروپس کے مابین رواں سال کے پرتشدد واقعات بھی شامل ہیں۔

ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر اور معروف مصنف ایلیکس ڈی وال نے کہا: ’حکومت نہ صرف اس (قحط) کی شدت سے انکار کر رہی ہے بلکہ اس حقیقت سے بھی انکاری ہے کہ اس بحران کی وجہ خود ان کی اپنی پالیسیاں اور فوجی حکمت عملی ہے۔‘

جنوبی سوڈان میں اقوام متحدہ کے مشن کے سربراہ ڈیوڈ شیئر نے کہا کہ ’رواں سال تشدد کے واقعات میں دو ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، تشدد سے کسان فصلیں کاشت کرنے سے قاصر ہیں، سپلائی کے راستے بند ہیں، بازاروں کو جلایا اور امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔‘

لیکوانگول کے لوگوں کا کہنا تھا کہ لڑائی سے ان کی فصلیں تباہ ہوگئیں، اب وہ پتے کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ جولائی میں تشدد کے دوران ایک اور خاتون کیڈرک کوروک کا نو سالہ بیٹا مارٹن خاندان سے بچھڑ گیا تھا اور اس نے ایک ہفتے سے زیادہ جنگل میں گزارا۔ جب اسے تلاش کیا گیا تو وہ شدید غذائیت کی کمی کا شکار تھا اور اس کی زندگی بچانے کے لیے بہت دیر ہوچکی تھی۔

کوروک نے روتے ہوئے کہا: ’وہ ہمیشہ مجھے کہتا تھا کہ وہ خوب پڑھائی کرے گا اور بڑے ہو کر میرے لیے بہت کچھ کرے گا۔ مرتے ہوئے بھی اس نے مجھے یقین دلایا کہ مجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

ایک نرس گیبریل گوگول نے بتایا کہ لیکوانگول کے کلینک کے عملے نے دسمبر کے پہلے ہفتے کے دوران 20 شدید غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کو رجسٹر کیا  جو گذشتہ سال اسی عرصے کے کیسز کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہیں۔ پائبر کاؤنٹی کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جنوبی سوڈان کی حکومت قحط کے پیمانے کو کیوں تسلیم نہیں رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گذشتہ ہفتے ایک مشترکہ بیان میں تین ایجنسیوں نے کاؤنٹی کے ایسے حصوں تک فوری رسائی حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جہاں لوگوں کو قحط کی تباہ کن سطح کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ رواں سال ورلڈ فوڈ پروگرام کو خوراک کی چوری سمیت امداد کی فراہمی میں کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اکتوبر میں ایک علاقے پر ہوائی جہاز سے خوارک کے پیکٹ گراتے ہوئے ایک بزرگ خاتون کی موت ہو گئی تھی۔ ڈبلیو ایف پی نے کہا کہ بھوک کے بحران سے نمٹنے کے لیے اگلے چھ ماہ کے دوران 470 ملین ڈالرز سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ اب جب کہ خشک موسم قریب آ رہا ہے تو عوام میں پرتشدد جھڑپوں کے دوبارہ سر اٹھانے کے خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں۔

پائبر قصبے کے ایک کلینک میں الزبتھ گیروشھ کے آٹھ ماہ کی عمر کے جڑواں بچے ماں کا دودھ پینے کے لیے بلک رہے ہیں۔ 45 سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں میں سے ایک شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا: ’بعض اوقات میں دودھ پلانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن میں ایسا نہیں کر سکتی اور بچے ساری رات روتے رہتے ہیں، اگر انہیں خوراک نہیں ملی تو مجھے فکر ہے کہ میں انہیں کھو دوں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی افریقہ