’خواتین کہیں بھی کسی سے بھی محفوظ نہیں ہیں‘

پاکستان میں انٹرنیٹ پر شدید ہراسانی کے ماحول میں خواتین کے اظہار رائے کی آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے۔

تصویر: اے ایف پی

ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں شدید ہراسانی کے ماحول میں خواتین کے اظہار رائے کی آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نامی غیر سرکاری تنظیم کے سروے میں بتایا گیا کہ کئی خواتین آن لائن ہراسانی جیسے مسائل کے حل کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) پر بھروسہ نہیں کرتیں۔

ڈی آر ایف نے پاکستان میں 60 خواتین سماجی کارکنوں اور ابلاغ کے شعبے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے ذاتی تجربات پر ایک رپورٹ مرتب کی ہے جس میں  آن لائن اظہار رائے پر انہیں جس ہراسانی اور نازیبا رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل خواتین میں سے 80 فیصد کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ پر نازیبا رویوں کی وجہ سے ان کی اظہار رائے کی آزادی محدود ہو گئی ہے جبکہ 61.7 فیصد خواتین ایسے کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے پر بھروسہ نہیں کرتیں۔

 رپورٹ کی مصنفہ رمشا جہانگیر کہتی ہیں ’جہاں انٹرنیٹ پر نازیبا رویوں کے شواہد بڑھ رہے ہیں اور تاخیر کا شکار سائبر ہراسمنٹ شکایات کی فہرست بڑی ہوتی جا رہی ہے وہیں حکام کو ان سب کا الزام سوشل میڈیا کمپنیوں پر لگانے کی بجائے ان چیزوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈی آر ایف کے سروے میں مختلف عمر کی خواتین کے انٹرویو کیے گئے جن میں سے 50 فیصد کا تعلق صوبہ پنجاب، 33.3 فیصد کا سندھ سے، دارالحکومت اسلام آباد سے 8.3  فیصد، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے بالترتیب دو اور ایک فیصد ہے۔

ان 60 خواتین میں سے زیادہ تر نے ’بدکلامی، نفرت انگیز الفاظ، گالم گلوچ، تصاویر کی چوری، بڑے پیمانے پر ٹرولنگ، پورن تصاویر کے ذریعے سپیمنگ اور غلط معلومات کے ساتھ مہم چلانے‘ کو انٹرنیٹ پر نازیبا رویے قرار دیا ہے۔

91 فیصد خواتین کے مطابق یہ نازیبا رویے زیادہ تر جنسی ہوتے ہیں اور پیشہ وارانہ کم اور ذاتی زیادہ ہوتے ہیں، جبکہ 85 فیصد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ایسا جعلی اکاؤنٹس سے کیا جاتا ہے۔

 سروے میں حصہ لینے والی خواتین میں سے 35 فیصد کو فیس بک، اور 31.7 فیصد کو ٹوئیٹر پرایسے نازیبا رویوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 25 فیصد کا کہنا ہے کہ انھیں ان دونوں ہی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر ہراسانی جھیلنا پڑی۔

صرف 14.2 فیصد خواتین نے اس طرح کے واقعات کو رپورٹ کیا۔ 61.7  فیصد خواتین مدد کے لیے ایف آئی اے پر بھروسہ نہیں کرتیں اور  26.7 فیصد کہتی ہیں کہ وہ ایسے واقعات کو رپورٹ تو ضرور کریں گی لیکن انھیں ایجنسی پر کوئی اعتماد نہیں۔

ذاتی تجربات

یوٹیوب بلاگر اور وکیل ایمان حاضر مزاری کو اپنے سیاسی نظریات بیان کرنے کے لیے اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی ہونے کے باوجود ایمان کو کئی مرتبہ انٹرنیٹ پرنازیبا رویوں کو جھیلنا پڑا۔

ایمان اپنے اوپر سب سے خطرناک آن لائن حملے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ انھیں ای میل اور یوٹیوب پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

’مجھے کئی لوگوں نے کہا کہ میں پاکستان واپس نہ آؤں کیوں کہ میرے خلاف مقدمہ دائر کرنے اور میرا پاسپورٹ ضبط کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ میرے خلاف بڑے پیمانے پر مہم چلائی گئی، جس میں میری ذاتی تصاویر کو شیئر اور نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا، چند رقص کرتی خواتین کی ویڈیو یہ کہہ کر شیئر کی گئیں کہ ان میں سے ایک میں ہوں۔‘

ڈی آر ایف رپورٹ کے مطابق کئی بار ایمان کو ان کا ٹوئیٹر اکاؤنٹ بند کرنے پر مجبور کیا گیا۔

’اگر کوئی میرے جیسے پس منظر اور حیثیت والا ڈر کر خاموشی اختیار کر لے تو پھر میں ان لوگوں کو جو اس طرح کا پس منظر نہیں رکھتے مایوس کرنے والا پیغام دے رہی ہوں گی کہ وہ ان مسائل پر بات نہ کریں جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ بات کرنی چاہیے۔‘

ایک خاتون نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی آر ایف کو بتایا کہ انٹرنیٹ کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

چونکہ یہ خاتون آئی ٹی سے متعلق تین فیس بک گروپس کی ایڈمن ہیں اور نیٹ ورکنگ کے لیے ٹوئیٹر کا استعمال بھی کرتی ہیں لہذا ان کا انجان افراد سے بھی رابطہ رہتا ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک بار ایک شخص کو میں نے ان باکس اور پوسٹس پر سپیمنگ کرنے سے روکا تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ میرے بارے میں چھوٹی سی سافٹ ویئر انڈسٹری میں ایسی افواہیں پھیلائے گا کہ کوئی بھی میرے ساتھ کام نہیں کرے گا۔ اس شخص کے پاس میرے حوالے سے کچھ نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ مجھے دھمکی دے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایک بار انھوں نے ایک بلیک میل کرنے والے شخص کے بارے میں ایف آئی اے سے رابطہ کیا تو وہاں جس شخص سے ان کی بات ہوئی ’وہ صرف یہ جاننے میں دلچسپی لے رہا تھا کہ آخر مجھے کس طرح سے ہراساں کیا گیا۔‘

’خواتین کہیں بھی کسی سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین