کیا نیا سال پی ڈی ایم کی کامیابی کا سال ہے؟

اصل مسئلہ کسی مبینہ مہرے یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا نہیں، پی ڈی ایم کا حقیقی چیلنج کچھ اور ہے۔

پشاور میں ہونے والے جلسے میں پی ڈی ایم کی قیادت (اے ایف پی)

 پی ڈی ایم نے 2020 میں عمران خان سے نجات اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے خاتمے کو اپنی سیاست کا مرکزی نکتہ بنائے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ثانوی اہمیت کی چیزیں ہیں، پی ڈی ایم کو درپیش حقیقی چیلنج کچھ اور ہے۔

پی ڈی ایم اگر ثانوی امور کو چیلنج سمجھ کر چلتی ہے تو اس کی کامیابی بھی آخری درجے میں ناکامی ہی تصور ہوگی، البتہ اگر وہ اپنے اصل ہدف پر نظر رکھتی ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ عمران خان سے استعفیٰ لینے میں ناکامی کے باوجود اسے کامیاب قرار دیا جائے۔

پی ڈی ایم کا دعوی ہے کہ عمران خان تو محض ایک مہرہ ہیں۔ اب ایک ’مہرے‘ کا استعفیٰ اگر لے بھی لیا تو کیسی کامیابی؟ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کچھ وقت کے بعد کوئی اور مہرہ نہیں آ جائے گا؟ شوکت عزیز، معین قریشی، ظفر اللہ جمالی جیسے جواہر سے سجی مالا میں نئے موتی پرونے کی ہنر کاری کسی بھی وقت بروئے کار آ سکتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی نفی کا مطالبہ بھی ثانوی اہمیت کا حامل ہے اور برائے وزن بیت ہے۔ پی ڈی ایم زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنا وزن عمران خان کی بجائے اس کے پلڑے میں ڈال دے تو ہماری طرف سے ڈھول سپاہیے کے لیے رب دیاں رکھاں۔ مبصرین کے نزدیک آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا ووٹ دینے کا فیصلہ بھی اپنی روح میں نیک چلنی کا ثبوت اور پرانی تنخواہ پر کام کرنے کے عزم کا ظہار تھا۔

اور اگر یہ مطالبہ برائے وزن بیت نہیں، بلکہ مطلوب و مقصود ہے تب بھی ثانوی ہے، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ ایک جامد تصور نہیں ہے کہ آج اس کے سیاسی کردار کی نفی ہو بھی گئی تو کل اسی کردار کا احیا نہیں ہو سکے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی آپ کتنی بار نفی کر چکے ہیں؟ بھٹو نے آئین میں آرٹیکل چھ متعارف کرایا تھا تو اس کردار کی نفی کر دی گئی تھی، جنرل مشرف سے جب استعفیٰ لیا گیا تھا تب بھی اس کردار کی نفی کر دی گئی تھی، جنرل مشرف پر مقدمہ اور اس میں ہونے والا فیصلہ بھی اس کردار کی نفی ہی سمجھا گیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس سب کے باوجود آج بھی آپ یہی مطالبہ ہتھیلی پر لیے سڑکوں پر ہیں؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل مسئلہ کسی مبینہ مہرے یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا نہیں۔ حقیقی چیلنج کچھ اور ہے۔ یہ مبینہ مہرے اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا یہ مبینہ کرداراس حقیقی چیلنج کا محض ’بائی پراڈکٹ‘ ہیں اور عمران خان کو تو مہرہ کہنا ویسے بھی خلط مبحث کے سوا کچھ نہیں کہ وہ ایک مقبول ترین رہنما تھے۔ پی ڈی ایم اگر اپنے دعووں میں سنجیدہ اور اپنے نعروں میں مخلص ہے تو اسے حقیقی چیلنج کو اپنا مخاطب بنانا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ چیلنج کیا ہے؟ چیلنج اصل میں وہ بیانیہ ہے جسے عمران خان نے معاشرے میں طرز بیاں بنا دیا۔ ایک قدامت پسند زرعی معاشرے میں میڈیا اور سوشل میڈیا کی قوت سے عمران خان نے ایک ایسا بیانیہ لوگوں میں رائج کر دیا جو سب کچھ بہا کر لے گیا۔ عمران نہیں، ان کا یہ بیانیہ پی ڈی ایم کا چیلنج ہے۔

یہ بیانیہ کیا ہے؟ یہ بہت سادہ سا ہے۔ اس کے مطابق سب سیاست دان چور، اچکے، لٹیرے اور خائن ہیں۔ اس ملک کو انہی نے برباد کیا ہے۔ ان کا مقصد صرف لوٹ مار ہے۔ یہ قومی وسائل کو لوٹ کر کھا گئے۔ تمام معاشی مسائل کے ذمہ دار یہ ہیں۔ ان کا کوئی اصول اور ایمان نہیں۔ ان کا جمہوریت سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ چند خاندانوں کی آمریت ہے جسے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا دیا گیا۔ یہ ایک شیطانی شکنجہ ہے جس میں عام آدمی کے آگے آنے کا کوئی امکان نہیں اور اقتدار صرف چند گھرانوں تک محدود ہے۔ یہ جمہوریت اصل میں ان چند گھرانوں کی غلامی ہے۔ ان کا کوئی اصول نہیں۔ یہ صرف اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ ملک کے وفادار نہیں۔ وغیرہ وغیرہ اور وغیرہ۔

یہ وہ بیانیہ ہے جس نے روایتی سیاست کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور عمران خان کو مقبول بنا دیا۔ حکومت میں آنے کے بعد اگرچہ عمران بھی کچھ مختلف نہ کر سکے اور ان سے عمومی مایوسی ہے لیکن حزب اختلاف کے بارے میں عمومی تاثر آج تک نہیں بدلا۔ حزب اختلاف اور روایتی سیاست آج بھی اس بیانیے کے گرداب میں پھنسی ہے جو عمران خان نے ان کی گردن سے لپیٹ دیا ہے۔

حزب اختلاف جب تک اس بیانیے کو شکست نہیں دیتی، کامیاب نہیں ہو سکتی۔ وہ اگر کامیاب ہو بھی گئی تو اسے واردات ہی سمجھا جائے گا سرخروئی نہیں۔ سرخرو ہونا ہے تو متبادل بیانیہ دینا ہوگا۔ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ اہل سیاست خائن، چور، اچکے، لٹیرے اور مفاد پرست نہیں ہیں۔ یہ واضح کرنا ہوگا کہ اہل سیاست قومی مسائل کو حل کرنے اور ان پر سنجیدہ مباحث کا ذوق اور اہلیت رکھتے ہیں۔ یہ دکھانا ہو گا کہ وہ اعلیٰ اصولوں کی آڑ میں اپنا الو سیدھا نہیں کرتے بلکہ پی ڈی ایم انجمن تحفظ مفادات باہمی کی بجائے واقعتا آئین اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے بنایا گیا ایک اتحاد ہے۔

2021  کی پہلی سہ ماہی میں طے ہو جائے گا کہ پی ڈی ایم اس چیلنج سے نمٹ پاتی ہے یا نہیں۔ تضادات کے سارے بوجھ کے باوجود اب تک کی پی ڈی ایم کی کارکردگی بری نہیں رہی۔ اس نے اپنے وجود کا بھرپور احساس دلا دیا ہے، البتہ کچھ خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ مریم نواز کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا اور ان کے والد کا بیانیہ ایک ہی ہے، لیکن بلاول اور ان کے والد کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے کہ وہ ایک ہی صفحے پر ہیں یا ان میں اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ن لیگ اپنے بیانیے کو ’بیعانیہ‘ بنا لیتی ہے یا پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں اقتدار سے جڑے امکانات کی وجہ سے معاملہ کر کے پیچھے ہٹ جاتی ہے تو بظاہر پی ڈی ایم جو بھی حاصل کرلے یہ عمران خان کے بیانیے کی جیت ہو گی۔

پی ڈی ایم کی کامیابی اب محض اس بات میں نہیں کہ عمران کو گھر بھیج دے۔ پی ڈی ایم تب کامیاب ہو گی جب وہ عمران کے بیانیے کو گھر بھیج دے گی۔ عمران کا رہنا یا نہ رہنا کوئی چیلنج نہیں، جہاں دو سال گزر گئے باقی بھی گزر جائیں گے۔ اصل مسئلہ عمران کا بیانیہ ہے جو آسیب بن کر حزب اختلاف کے پیچھے ہے۔

عمران خان کے بیانیے کی نفی البتہ گفتار سے نہیں کردار سے ہو سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم اپنے کردار سے اس کی نفی کر پائے گی؟ میرا خیال ہے پیپلز پارٹی کا تازہ فیصلہ اسی سوال کا پہلا جواب ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ