متنازع امریکی مصنف بریٹ ایسٹن ایلس نے یہ کہہ کر نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ انہیں انٹرنیٹ پرسیام فام خواتین کے مقابلے میں زیادہ برا بھلا کہا جاتا ہے۔
گذشتہ 34 برس سے تنازعات کا شکار چلے آرہے امریکی مصنف کا پہلا ناول ’لیس دین زیرو‘ کوکین کے ذکر سے بھرا ہوا تھا۔
امریکی اشاعتی ادارے سائمن اینڈ شسٹر کے ایک مدیر نے اس ناول کو سخت تنقید کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔ 1991 میں ’امریکن سائیکو‘ کے نام سے ان کا ایک سنسنی خیز ناول شائع ہوا۔ 2016 میں رولنگ سٹون نامی امریکی جریدے کو انٹرویو میں مصنف نے خود کہا تھا کہ اس ناول سے تاثر پیدا ہوا کہ وہ ایک قابل نفرت، عورت بیزار اور اذیت پسند انسان ہیں۔
بریٹ ایسٹن ایلس نے کئی دہائیوں تک بڑے فخر کے ساتھ فحش اور ہیجان خیز مواد کی نمائش اور اس کی وکالت کی ہے، لیکن اس بار یوں دکھائی دیتا ہے کہ الزام ان کے سفید فام ہونے کو دینا ہوگا کیونکہ انہیں آن لائن برا بھلا کہا جارہا ہے لیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
مصنف نے چینل 4 نیوز کے ایک پروگرام میں سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ہونے والی جملے بازی کی نوعیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یہ پروگرام ان کی نئی کتاب ’وائٹ‘ کی تشہیری مہم کا حصہ تھا۔
پروگرام کی میزبان کیتھی نیومین کے ایک سوال پر انھوں نے کہا: ’مجھے ٹوئٹر پر بہت برا بھلا کہا جاتا ہے۔ شاید اس سے کہیں زیادہ جتنا کسی سیاہ فام خاتون کو کہا جاتا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ سیاہ فام خواتین کے بارے میں متعصبانہ جملے بازی سوشل میڈیا پلیٹ فام سے فوری طور پر ہٹا دی جاتی ہے۔
ایلس کا کہنا تھا کہ ’آپ ٹوئٹر پر اتنی نسل پرستی کا مظاہرہ اُسی وقت کریں گے جب لوگ آپ پر تنقید کریں گے۔ نسل پرستی کی صورت میں آپ کی تحریر ہٹا کر اکاؤنٹ بند کر دیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اب ایسا ہو رہا ہے۔
سفید فام لوگوں میں یہ دلیل عام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آن لائن افراد سے رابطے کے دوران ان کے انداز سے، درست یا غلط طور پر، ناراض ہو جاتے ہیں۔ ایلس کہتے ہیں: ’اگرمیں سیاہ فام خاتون ہوتا تو آپ ایسا کبھی نہ کرتے۔‘
گویا کہ سیاہ فام لوگوں کا تحفظ کبھی کوئی ایسا معاملہ رہا ہو جس کے لیے دنیا اکٹھی ہوئی ہو۔ گویا کہ گمنام اور ضرورت سے زیادہ پرجوش افراد کے گروپس نے بریٹ ایسٹن ایلس کے ٹوئٹر پیغامات پر صرف اس لیے تبصرہ کیا ہوکہ وہ سفید فام ہیں۔
اس کے برعکس لوگوں نے میرے ٹوئٹر پیغامات پر تبصرہ کیا ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں ایک معروف اور متنازع مصنف ہوں جوغیر افسانوی تحریروں پر یہ کہہ کر تنقید کرتا ہے کہ چونکہ میں ایک سفید فام اور مرد ہوں جس کی وجہ سے مجھے سوشل میڈیا پر آزادی ہے۔
صورت حال اس کے برعکس ہے کیونکہ میں ایک سیاہ فام خاتون ہوں۔ ٹوئٹر پر براہ راست رابطے کی درخواستوں میں ایسے مضامین موجود ہیں جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ سیاہ فام زبردستی جنسی تعلق کرنے والے ہوتے ہیں۔
عملی طور پر میں جو بھی مضمون لکھتی ہوں، چاہے وہ کسی انسانی نسل کے بارے میں ہوں یا نہ ہوں اس پر ایسا متعصبانہ تبصرہ کیا جاتا ہے جسے پڑھ کر ہنسی آتی ہے۔
بعض افراد میرے کام کرنے کی صلاحیت پر اس وجہ سے سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کے خیال میں سیاہ فام ہونے کے سبب میرے اندر عقل نہیں۔ مجھے ریپ کی نسل پرستی پر مبنی دھمکی دی جاتی ہے، مجھے کہا جاتا ہے کہ میں وزن کم کروں۔
مجھے کہا گیا کہ میں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سیاہ فام بالا دستی کی قائل ہوں۔ ایسا اس لیے کہا گیا کہ میں نے نسل پرستی کے خلاف بات کی ہے۔
مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف سیاہ فام خواتین کے مقابلے میں مجھے نامساعد صورت حال کا کم سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جنہیں دوستوں اور دفتر کے ساتھیوں سے اس لیے مدد مانگنی پڑتی ہے کیونکہ ٹوئٹر کی نسل پرستی کے مسئلے سے نمٹنے کی صلاحیت کمزور ہے۔
حقیقت میں سیاہ فام خواتین کو آن لائن تکلیف دہ جملوں کا اس قدر سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ مسئلے سے ازخود نمٹنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کیونکہ ٹوئٹر اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتا۔