وزیراعظم ’جیت‘ گئے

وزیراعظم عمران خان جیت گئے۔ اور ہارا کون؟ وہ جن کا  یہی خیال تھا کہ وزیراعظم پہنچیں گے وہ جو 11 ذبحہ شدہ ہزارہ کے لواحقین کوئٹہ میں اپنے لاشے لیے بیٹھے تھے۔

(پی آئی ڈی)

جب مچھ کے گھناؤنے واقعے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہزارہ برادری کے مطالبات پر بحث و مباحثہ ہوا تو وزیر برائے انسداد منشیات بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا خیال تھا کہ وزیراعظم کوئٹہ جانا چاہیے۔ دیگر کئی وزرا بھی وزیراعظم سے پہلے بول چکے تھے کہ ان کا جانا مطلوب ہے۔

بہرحال اس سے پہلے کہ وزیراعظم طے کرتے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے صاف الفاظ میں کھل کر کہا ’آپ کو نہیں جانا چاہیے اور اگر آپ جائیں گے تو جہاں جہاں اس طرح کے واقعات رونما ہوں گے آپ کو بلایا جائے گا اور آپ کوجانا پڑے گا۔‘ تاہم شیخ رشید نے عوامی سطح پر یہ مشورہ دینے کی تردید کی۔

گفتگو کے دوران وزیراعظم نے طے کیا کہ وہ نہیں جائیں گے۔ انہوں نے اپنے وزیر داخلہ کی بات مانی اور طے کیا کہ ان کے دو ساتھی ایک وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ علی زیدی اور معاون خصوصی اور وزیراعظم کے پرانے دوست ذوالفقار بخاری کو لواحقین سے بات کرنے کے لیے کوئٹہ بھیجا جائے۔ اجلاس میں دونوں نے وزیراعظم کو تسلی دی کہ وہ لواحقین کو اس بات پر رضامند کر لیں گے کہ پہلےتدفین کریں پھر وزیراعظم آئیں گے۔

اسلام آباد اور کوئٹہ میں مختلف اداروں اور لوگوں کا سہارا لیا اور رہنمائی لی۔ وسائل کا استعمال کیا چاہے وہ مجلس وحدت المسلمین تھی یا اہم ادارے اور رشتہ داریاں تھی انہوں نے سب کے ساتھ بات اور مختلف طور طریقہ استعمال کیے کہیں فون کال کی، کہیں جہاز پر روانہ ہوئے جو معاہدہ ہو رہا تھا وہ بھی ٹویٹ کیا۔ علی زیدی نے یہ بھی ٹویٹ کر دیا کہ لواحقین کو جو معاوضہ دیا جا رہا ہے اس کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ جو بات چیت ہورہی تھی اس کا تفصیل سے ذکر کیاگیا لامحالہ آخر میں یہ معاملہ اس نہج پر لے گئے جہاں پر جو وزیراعظم چاہتے تھے وہ لواحقین آخر کار مان گئے۔

وزیراعظم کوئٹہ میں بلوچستان کی کابینہ سے ملے، کور کمانڈرسدرن کمانڈ بھی اجلاس میں شامل تھے اور لواحقین سے بھی ملاقات ہوئی۔ لواحقین میں سے کچھ لوگوں کو خواتین یونیورسٹی میں بلایا گیا جہاں جب انہوں نے ان سےشکایت کی تو وزیراعظم نے چار اہم باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ لفظ بلیک میل انہوں نے ان کے لیے استعمال نہیں کیا یہ لفظ پی ڈی ایم کے لیےاستعمال کیا تھا۔

یہ وزیراعظم کا موقف تھا لیکن جو انہوں نے کہا وہ ویڈیو پر صاف موجود ہے جس میں انک ااشارہ بالکل واضح لواحقین کی طرف تھا۔ ویڈیو میں تو یہی ہے کہ وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ لواحقین کہہ رہے ہیں کہ وہ تدفین تب کریں گے جب وزیراعظم آئیں گے۔ تو آپ وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کرسکتے۔ تو کیا وزیراعظم کچھ اور سوچ رہے تھے یا ان کو کچھ اور بتایا جا رہا تھا۔ بہرحال جو بھی ان کے ذہن میں تھا جو الفاظ انہوں نے ادا کیے اس میں تو انہوں نے بہت واضح طور پر لواحقین کی طرف اشارہ کیا ہے۔

دوسری اہم بات وزیراعظم نے یہ بتائی کہ وہ اس وقت آتے تھے جب سب لوگ امام بارگاہ آنے سے ڈرتے تھے۔ ’میں اس وقت بھی آپ لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا۔‘ یہ بات حقائق سے بالکل برعکس ہے۔ سیاست دان تو ہمیشہ نکل کر آجاتے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں چاہے ان روایتی سیاست دانوں کا کوئی بھی قول و فعل ہو۔ ہر مسلک کے لوگ مشکل وقت میں امام بارگاہ گئے ہیں خود وزیراعظم عمران خان بھی گئے ہیں۔

تیسری بات جو وزیراعظم نے کہی کہ جب میں عمران خان تھا تو اور بات تھی۔ ’اب میں وزیراعظم ہوں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وزیراعظم ہر جگہ چلا جائے۔‘ یہ بات وہ اپنی 2013 کی بات کے برعکس کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اس بات کو واضح کریں کہ اس وقت اس بات کا کیا مقصد تھا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بات سات سال پہلے جو کی تھی آج اس کے بالکل برعکس ہے۔ تو آپ واضح کریں آپ اتنے بڑے منصب پر بیٹھے ہیں کہ آپ کی سوچ کیوں تبدیل ہوئی ہے۔

ایک تو جہاں تک عمران خان کا یہ کہنا ہے کہ ہر جگہ وزیراعظم نہیں پہنچ سکتے انہیں پہنچنا چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے اپنے ملک میں جہاں کہیں بھی کوئی بڑا واقعہ ہوجائے لوگ بڑی تعداد میں شہید ہوجائیں تو ریاست کے سربراہ وہاں جاتے ہیں کیوںکہ آپ نے ان کے پاس جا کر دکھ درد بانٹنا ہوتا ہے۔

یہ بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ مسائل اور جو پیچیدگیاں ہیں آپ عوام کے لیے وہ سب کچھ نہیں کرسکتے لیکن جو آپ کے بس میں ہے یقینا آپ ہمدردی کر سکتے ہیں ان کی اشک شوئی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ کو لوگوں کے دکھ درد ان کی تکالیف کا احساس ہے آپ محسوس کرسکتے ہیں۔ اگرچہ آپ فوری طور پر ان کے مسائل حل نہیں کرسکتے پھر بھی لوگوں کے لیے آپ کا حساس ہونا ان کے دکھ درد کو سمجھنا ان کے لیے مرہم ہوتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ آپ اس مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم نے وہاں جا خطے کی صورت حال بیان کی۔ پاکستان کو دہشت گردی کا جو خطرہ لاحق ہے خاص طور پر مارچ سے ادارے ان کو بتا رہے ہیں اور اس کا انہوں نے ذکر بھی کیا کہ فرقہ واریت، افراتفری ملک میں پھیلائی جاسکتی ہے۔ انہوں کہا کہ 40 سے 45 لوگ ہیں جو یہ فرقہ واریت اور دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ ان کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ یہ تمام باتیں فیصلہ سازی میں اہم ہیں اور وزیراعظم کو اس کا ذکر بھی اہم پلیٹ فارم پر کرنا چاہیے۔ یہ بات وہ جن لوگوں سے کر رہے ہیں ان کے پیارے ذبح ہوئے۔ یہاں تو بات کچھ اور کرنی چاہیے ان کو احساس دلانا چاہیے کہ وزیراعظم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں ایک کمزور اور مظلوم طبقے سے جو ضد لگائی تھی اس کو منطقی انداز میں بتانے کی کوشش کی اور جو بھی ان کی سوچ تھی وہ ایک ضد بن کر سامنے آئی۔ وہاں جا کر ان سے دل سے بات کرنا چاہیے تھی۔ – Healing Touch کا جو لفظ ہے وہ بہت اہم ہے اس کا حکومت سازی میں بہت بڑا کردار ہے جبکہ دہشت گردی سے پاکستان کے لاکھوں لوگ اور بہت سی برادریوں کے دل بہت دکھی ہیں۔ ان کو وہ زبان ادا کرنی چاہیے تھی جو وزیراعظم کرتے ہیں اور عموما کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں وزیراعظم نے اس چیز کو نہیں سنبھالا جس طرح سنبھالنا چاہیے تھا۔

وزیراعظم نے وہاں جا کر پی ڈی ایم کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعظم کو ملکی سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ان کا تعلق تو ہزارہ برادری اور ان لوگوں سے تھا جن کے پیارے ذبح ہوئے۔ بحیثیت وزیراعظم آپ سے توقع یہی ہے کہ آپ اسی بات پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے اپنے الفاظ اسی حوالے سے ادا کریں گے۔ یہ وقت کسی کے لیے بھی سیاست کا نہیں تھا۔ یہ وقت تو دکھ درد اور کرب کو سمجھنے کا تھا۔ وزیراعظم نے جب شوکت خانم کا افتتاح کیا تھا اور جس درد سے بات کی تھی یا جب وزیراعظم بننے کے بعد حلف لینے سے پہلے جس درد سے تقریر تھی یہ موقع اس طرح کی Statesmanship کا تھا اور جیسے گھر کے بڑے جس طرح بات کرتے ہیں یہ بات سیاست سے بہت بالاترہے یہ بات انسانیت اور حساس ہونے کی ہے۔

مظلوم، دکھی اور کمزور کے سامنے شرط پیش کریں، ان کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں، ان لوگوں کے سامنے جو شدید سردی میں اپنے پیاروں کی لاشیں لیے چھ روز سے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو وزیراعظم نے ہرا دیا۔ ان کو وزیراعظم نے اس بات پر مجبور کیا جو ان کا دل چاہتا تھا اور ان کا کوئی ایسا مطالبہ تو نہیں تھا جس سے کسی کو نقصان ہوتا۔ آپ نے ان لوگوں کی داد رسی ایک عجب طریقے سے کی۔ ان سے وہ کروایا جو وہ نہیں چاہتے تھے لیکن ان کو کرنا تھا کیوں کہ وہ کمزور تھے۔ ان کے سامنے ریاست کھڑی تھی۔ ان کے سامنے وزیراعظم کھڑَے تھے۔ ان کے ساتھی کھڑے تھے جو طرح طرح کی باتیں کررہے تھے۔ نہ جانے کیا انہیں بتایا گیا کہ اگر انہوں نے بات نہ مانی تو نتیجہ کیا ہوسکتا ہے۔ بہ تو مظلوم، بےسہارا اور بے کس تھے۔ انہوں نے تو ماننا ہی تھا۔ انہوں نے لاشیں دفنائیں اور ان کے ساتھ اپنا کرب، دکھ، غصہ اور نہ جانے کیا کیا دفنایا ہوگا۔

کاش وزیراعظم نے یوٹرن لے لیا ہوتا۔ کاش وزیراعظم وہی عمران خان ہوتے جس نے 2013 میں اس وقت کے وزیراعظم کو کہا تھا کہ آپ جائیں اور ان کی شرط کو پورا کریں تاکہ وہ لاشیں دفنائیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ