مولانا فضل الرحمن کی نئے سال کی ابتدا پر پریس کانفرنس میں راولپنڈی کے خلاف اعلان جنگ نے پاکستان کے جاری سیاسی بحران کی کشیدگی کو بڑھا دیا ہے۔
پہلے صرف اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ پیداوار کو ہٹانے کی باتیں ہو رہی تھیں لیکن اب مولانا فوج کی موجودہ قیادت کو عمران حکومت کو بنانے کا باقاعدہ ’مجرم‘ ٹھہرا رہے ہیں۔ قومی مکالمے میں اس قسم کی تلخی اور راولپنڈی کے بارے میں اس قسم کی سخت زبان نے اس بات کی اہمیت بڑھا دی ہے کہ موجودہ بحران کا حل جلد از جلد تلاش کیا جائے ورنہ یہ جمہوریت، ملک کی سلامتی اور یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہ تحریر آپ یہاں کلک کرکے مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
راولپنڈی کو اب سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر لانگ مارچ کا رخ ان کی طرف ہوتا ہے تو اس کے ان کے ادارے پر کیا نتائج مرتب ہوں گے۔ کیا حزب اختلاف کے احتجاج یا مارچ کو سختی اور تشدد کے ذریعے روکا جائے گا؟ اگر ایسا کیا گیا تو کیا ہماری سلامتی کے ادارے اس احتجاج کو روکنے میں کامیاب ہوں گے اور اگر اس کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو کیا راولپنڈی میں بحیثیت ادارہ اس حکمت عملی پر اتفاق بھی رہے گا کہ احتجاج کو قوت کے ساتھ کچل دیا جائے؟
یقینا اس احتجاج کی شدت اور اس کی پنڈی پر مرکوز توجہ ادارے کے اتحاد کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی اور کسی قسم کا تشدد عوام میں اور ادارے میں فاصلہ بڑھا دے گا۔ یہ ملک کی سالمیت اور بقا کے لیے کسی طرح بھی درست نہیں ہوگا۔ اسی سوچ کی وجہ سے 1977 میں لاہور میں فوج نے احتجاج کرتے ہوئے عوام کے خلاف طاقت استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اس بڑھتے ہوئے سیاسی بحران جس کا رخ اب آہستہ آہستہ راولپنڈی کی طرف آ رہا ہے نمٹنے کے لیے پنڈی کو جلد ازجلد اصلاحی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ پچھلے چھ سالوں سے جاری سیاسی ہلچل میں اب عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس بات کو تقریبا سچ ماننے لگی ہے کہ ہمارے ہاں انصاف اور احتساب کا جھکاؤ اسی طرف ہوتا ہے جو راولپنڈی چاہتا ہے۔
2014 کے دھرنے میں دفاعی اداروں کی مداخلت کے الزامات، جے آئی ٹی کی تشکیل میں ان اداروں کی شمولیت اور ثاقب نثاری عدالت اور احتساب عدالتوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے نے ان معتبر اداروں کی سیاسی معاملات میں دلچسپی اور مداخلت کو عوام پر ظاہر کر دیا ہے۔ ان سب اقدامات سے عوام کو یہ بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ کون سی سیاسی قوتیں ان اداروں کے لیے قابل قبول نہیں اور وہ انہیں سیاسی طور پر ختم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔
اس تصور کو مضبوط کرنے میں حکومت کا فوج کے ساتھ ایک صفحے پر ہونے کے وظیفے کے بار بار ورد نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم کا ہر وقت کہنا کہ فوج ان کے خلاف اس لیے نہیں کچھ کرتی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں بدعنوان نہیں ہوں فوج کو مزید اس سیاسی دلدل میں کھینچ رہا ہے۔ کیا یہ منفی عوامی تصور اس مقدس قومی ادارے کی یکجہتی اور غیر جانبداری کے بارے میں سنجیدہ سوال نہیں پیدا کر رہا؟
کچھ عرصہ پہلے تک تو اس قسم کی تشویشناک سیاسی صورت حال کا ذمہ دار حکمران جماعت کو بتا کر اس کے خاتمے کا اہتمام آسانی سے کر دیا جاتا تھا مگر اس وقت موجودہ نظام کے خالق اس نظام کو موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر چلا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کی ناکامی کا ذمہ دار اکیلے حکومت کو قرار دے کر اسے گھر بھی نہیں بھیجا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ حالات سے لگتا ہے کہ یہ شراکت کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹنے کو ہے۔ اس سارے تجربے میں ہمارے لیے بہت سارے سبق ہیں اور اس کے سارے کردار اس تجربے کی ناکامی پر غور و فکر کریں اور جمہوریت کو قدرتی طور پر نشونما پانے کا موقع دیں گے۔
تحریک انصاف ایک مضبوط سیاسی قوت ہے اور اس نے ان طبقوں میں سیاسی بیداری پیدا کی اور انہیں سیاسی عمل میں شامل کیا جو پہلے سیاست کو بری نظر سے دیکھتے تھے۔ پی ٹی آئی کو اپنی اس مضبوط بنیاد کو مزید تقویت دینے کی ضرورت تھی نہ کہ بیساکھیوں کا استعمال کرتے ہوئے اداروں کی مدد سے اپنے نظریات کی مخالف جماعتوں سے مل کر حکومت بناتے۔
یہ بات تو اب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ 2014 کا دھرنا اداروں کی مدد سے چلایا گیا جس کی ایک جمہوری اور نئی سوچ رکھنے والی پارٹی کو ہرگز ضرورت نہ تھی۔ جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی ایک جمہوری پارٹی کی طرح بلوغیت پر مبنی رویہ اختیار کرے۔ اسے اداروں کی سہولت کاری حاصل کرنے کی بجائے عوام میں اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی یہ کام اپنی بہتر کارکردگی، جمہوری رویے اور رواداری سے اداروں کی سیاسی مدد کے بغیر بھی سر انجام دے سکتی ہے۔
اسی طرح پی ڈی ایم کو جمہوریت کی بقا اور ملک کے استحکام کے لیے سیاسی درجہ حرارت میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔ ملک کی تمام حزب مخالف کی جماعتوں، جن کے ووٹروں کی تعداد 65 فیصد سے بھی زیادہ ہے، اور فوج کے درمیان عدم اعتماد کی فضا زیادہ دیر تک قائم رہی تو یہ ملک کی سلامتی اور معیشت کے لیے کسی طرح بھی سودمند نہیں ہو گی۔
ہم نے پچھلے ستر سالوں کے تجربوں سے دیکھ لیا ہے کہ جو بھی نظام جس میں جمہور کو فیصلے کا حق نہیں ہو گا یا اس کی رائے کا احترام نہیں کیا جائے گا تو وہ نظام زیادہ دیر نہیں چل سکتا بلکہ وہ جمہوری اداروں کو کھوکھلا کرتا جائے گا اور اس پر عوام کا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔ جمہور کے فیصلے کو نہ ماننے کی وجہ سے ہمارا ملک دولخت ہوا۔
ہمارے ملک کی سیاسی بقا کے لیے ضروری ہے کہ تمام شراکت کار آئین کی بتائی ہوئی حدور میں رہتے ہوئے اپنا کام کریں اور جمہوری اداروں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں۔ سیاسی انجینئرنگ پہلے بھی ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گی لیکن کیا ہمارے سیاسی نظام کے شراکت کاروں کو اس کا ادراک ہے؟