کیا انگریزی سے ناواقفیت بےعزتی کی بات ہے؟ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریزی سیکھنا وقت کی ضرورت ہے، مگر اس کی آڑ میں دوسروں کو تضحیک کا نشانہ بنانا انتہائی غلط عمل ہے۔

ہمارے ہاں انگریزی صرف ایک زبان نہیں، سٹیٹس سمبل ہے(اے ایف پی)

کچھ دیر پہلے ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں اسلام آباد کے ایک کیفے کی دو مالکان اپنے مینیجر سے انگریزی میں بات کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ان خواتین کے اس تضحیک آمیز رویے پر سوشل میڈیا پر کافی تنقید کی جا رہی ہے۔

مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ رویہ صرف ان دو خواتین تک محدود نہیں ہے۔ اس رویے کا شکار ہماری زیادہ تر ایلیٹ کلاس ہے۔ جسے انگریزی زبان میں بات کرنا قابل فخر لگتا ہے اور اپنی زبان میں بات کرتے ہوئے شاید ان کو اتنا اچھا نہیں لگتا۔ اس میں ایلیٹ کلاس کی سوچ کا قصور تو ہے ہی کہ ان کو شروع سے ہی جب انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے تو وہیں سے ان میں ایک احساس برتری پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 

مجھے اس بات کا احساس تب ہوا جب میں گاؤں کے سکول میں چھٹی جماعت تک پڑھنے کے بعد شہر کے ایک انگریزی میڈیم سکول میں داخلہ کے لیے گیا۔ میں نے انگریزی صرف چھٹی کلاس میں ہی پڑھی تھی اور تب مجھے صرف اے بی سی لکھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا۔ جب ان شہرکے سکول والوں نے میرا داخلہ ٹیسٹ لیا تو میں اس میں فیل ہو گیا۔ سکول کے پرنسپل نے کہا کہ مجھے تو انگریزی آتی ہی نہیں اس لیے وہ مجھے اپنے سکول میں داخلہ نہیں دے سکتے۔ تب مجھے بہت برا محسوس ہوا۔ مگر اس سکول کے پرنسپل، فیملی کے ایک عزیز کے دوست تھے، جن کے کہنے پر انہوں نے مجھے تین ماہ کا وقت دے دیا کہ اگر میں اس عرصے میں انگریزی میں کوئی بہتری دکھا سکا تو وہ مجھے آگے وہاں پڑھنے دیں گے ورنہ مجھے کسی اور سکول میں داخل کروا دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے لیے یہ تین ماہ کسی چیلنج سے کم نہیں تھے۔ کیونکہ مجھے اس قلیل عرصے میں جہاں انگریزی لکھنا، پڑھنا اور سیکھنا تھا، وہیں اپنے کلاس فیلوز کے تضحیک آمیز رویے کو بھی برداشت کرنا تھا۔ جو مجھے اس لیے جاہل اور گنوار سمجھتے تھے کہ مجھے انگریزی نہیں آتی تھی اور ان میں سے بیشتر کا یہ خیال تھا کہ میں تین ماہ کے بعد کے ٹیسٹ میں فیل ہو کر وہاں سے چلا جاؤں گا، مگر میری یہ خوش قسمتی تھی کہ مجھے ایک بہت اچھے استاد اور گھر میں ایک کزن کا ساتھ مل گیا۔ 

میں نے ان کی مدد سے وہ ٹیسٹ پاس کیا بلکہ میٹرک تک کلاس میں انگریزی میں ٹاپ کرتا رہا اور انگریزی کی ایسی بنیاد بنی کہ مجھے آگے کالج، یونیورسٹی میں بھی انگریزی پڑھنے یا لکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود مجھے اپنے گھر والوں، خاندان، دوستوں سب کے ساتھ اب بھی پنجابی میں بات کر کے ہی اچھا محسوس ہوتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اس کو سیکھنا وقت کی ضرورت ہے، مگر اس کو سیکھ کر کسی احساس برتری کا شکار ہو جانا اور دوسروں کو اس کی وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنانا انتہائی غلط عمل ہے۔

اسی طرح انگریزی نہ آنے کی صورت میں بلا وجہ خود کو احساس کمتری میں مبتلا رکھنا بھی غلط ہے۔ کیونکہ اتنے سال قبل انگریزوں کے چلے جانے کے بعد بھی شاید انگریزی کے معاملے میں ہمارا احساس کمتری ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا اور اس کا اظہار ہماری بنیادی تعلیم میں بھی نظر آتا ہے۔ جہاں دنیا کے کئی ممالک میں بچوں کو پرائمری تک تعلیم ان کی مادری زبان میں دی جاتی ہے ہمارے ہاں وہاں بھی انگریزی کو ہی گھسا دیا گیا ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں یہ صورت حال بہت عیاں ہے۔ کیونکہ باقی تینوں صوبوں میں پھر بھی پرائمری تک مادری زبان پڑھائی جاتی ہے۔ 

اس سے شاید یہی محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مادری زبان کے حساب سے ہم احساس کمتری کا زیادہ شکار ہیں۔ اس سوچ کو اب بدلنا ہوگا۔  ہمیں خود کو انگریزی کے اس زعم سے آزاد کرنا ہو گا  کہ اگر کسی کو اچھی انگریزی لکھنی اور بولنی آتی ہے تو وہ بہت قابل ہے۔ قابلیت کا معیار کسی بھی انسان کا کام ہونا چاہیے، نہ کہ کسی ایک خاص زبان سے شناسائی اور اس میں مہارت ہونا۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی مادری زبانوں کو عزت دینا بھی سیکھنا ہوگا۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے تب تک اسلام آباد کیفے جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ