کیا بڑی کمپنیوں نے موسیقی کو یرغمال بنا لیا؟

پاکستان میں موسیقی کے شعبے سے منسلک افراد برانڈز کی تشہیر کے ساتھ میوزک پروگراموں کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں؟

گذشتہ چند برس سے بڑھتی ہوئی کمرشلائزیشن نے موسیقی کے معیار پر سوال اٹھائے ہیں (تصویر: پکسابے)

موسیقی عالمی سطح پر ہمیشہ پاکستان کی پہچان رہی ہے، خاص کر قوالی اور کلاسیکل موسیقی۔ نیم کلاسیکل موسیقی میں تو پاکستان سے ایک سے ایک بڑھ کر نامور موسیقار و گلوکار سامنے آئے ہیں۔

تاہم گذشتہ چند برس سے بڑھتی ہوئی کمرشلائزیشن نے موسیقی کے معیار پر سوال اٹھائے ہیں۔ اگر ماضی قریب میں دیکھیں تو 2008 میں ’کوک سٹوڈیو‘ کے آغاز سے اب تک موسیقی کے شعبے میں کمرشلائزیشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

اب حال یہ ہے کہ ’کوک سٹوڈیو‘ کے بعد ’نیس کیفے بیسمنٹ‘، پھر ’پیپسی بیٹل آف بینڈز‘ کا دوبارہ اجرا اور اس کے بعد اب ’ویلو ساؤنڈ سٹیشن‘، ’بسکونی میوزک‘ اور ’کشمیر بیٹس‘ جسے پروگرام بھی شروع ہوگئے ہیں۔

جہاں ان میں پیش کیے جانے والے کچھ گانے مقبول ہوئے ہیں، وہیں کچھ حلقے ان کی افادیت پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان میں موسیقی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی کمرشلائزیشن سے کیا پاکستانی موسیقی کو فائدہ ہورہا ہے؟ یہ سوال ہم نے پاکستان میں موسیقی کے شعبے سے وابستہ سرکردہ افراد کے سامنے رکھا جنہوں نے اس کے دونوں پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی۔

استاد حامد علی خان کے صاحبزادے ولی حامد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراض کیا کہ اس وقت بہت سے ایسے گلوکار میدان میں ہیں جو لائیو نہیں گاسکتے اور ان کی گلوکاری کا سارا دارومدار ’ڈیجیٹل ماسکنگ‘ پر ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس پر ستم یہ کہ چند مشہور گانے ہی ہیں جنہیں مختلف انداز سے ہر پروگرام میں گایا جارہا ہے جس سے تخلیق کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ صرف مخصوص ’لابی سسٹم‘ پنپ رہا ہے یعنی سب لکیر کے فقیر ہی ہیں کہ ’ریمکس کو ری کری ایٹ‘ کرنے کا نام دیا جا رہا ہے جو افسوس ناک ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان برانڈڈ میوزک پروگراموں میں نئے گلوکاروں کو نئے گلوکاروں ہی کے ساتھ گانے کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہورہا جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد غلام علی، عابدہ پروین، حامد علی خان جیسے بڑے ناموں کا نئے گلوکاروں کے ساتھ اشتراک کرکے موسیقی ترتیب دی جائے۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ روایتی موسیقی اور خاص کر علاقائی زبانوں کی موسیقی کو نظرانداز کیا گیا ہے، دوسرے ملکوں کی ثقافت اپنانے پر زور دیا جارہا ہے اور اپنی ثقافت کو اہمیت نہیں دی جاتی۔

ولی حامد نے مزید کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ان گانوں کی بھرپور تشہیر کی جاتی ہے، اس لیے دیکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ نظر آتی ہے مگر حقیقت اکثر مختلف ہوتی ہے۔

ان کے بقول ملک میں اس وقت کوئی ریکارڈ لیبل بھی نہیں ہے اور نئے گانے والے پریشان رہتے ہیں جبکہ 1990 کی دہائی اور رواں صدی کے آغاز میں پورا جنوبی ایشیا پاپ میوزک کے لیے پاکستان کی جانب دیکھتا تھا۔

پاکستان ٹیلی ویژن لاہور مرکز کے ایگزیکٹو پروڈیوسر محسن جعفر متعدد اعلیٰ معیار کے موسیقی پروگرام ترتیب دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’موسیقی ایک بہت ہی سنجیدہ چیز ہے۔ بہت سے برانڈز نے اپنی تشہیر کے لیے موسیقی کا سہارا لیا ہے، جس میں سب سے زیادہ حق تلفی گلوکاروں کی ہورہی ہے اور بہت سے ایسے گانے والے ہیں جو ’آٹو ٹیونر‘ لگا کر اور مکسنگ کرکے گانے تو بنا دیتے ہیں، جن میں سے ایک دو مشہور بھی ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے دماغ بھی آسمان پر پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ لائیو نہیں گا سکتے۔‘

ان کہنا تھا کہ ’موسیقی کے نام پر ایسے لوگ تھوپے جارہے ہیں جنہوں نے کبھی زندگی میں ریاض نہیں کیا، انہیں موسیقی کی ابجد بھی نہیں معلوم اور شور شرابے کو موسیقی کا نام دے دیا گیا ہے۔‘

محسن جعفر کا کہنا تھا کہ موسیقی کو کمرشلائز کرنا ہے تو کم از کم حقیقی گلوکاروں کو لینا چاہیے، جن کی کوئی کمی نہیں ہے۔

اگرچہ موسیقی کے شعبے میں بہت زیادہ کمرشلائزیشن کے کچھ فائدہ بھی ہیں جیسے ترویج دینے سے یہ شعبہ پھلتا پھولتا ہے اور بالآخر ’اوریجنل میوزک‘ کی طرف لوگ جاتے ہیں جو پاکستان میں علاقائی موسیقی یا ’فوک میوزک‘ ہے اور یہی ملک کی پہچان بھی ہے۔

دوسری جانب گلوکار اور موسیقار علی ظفر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونا کچھ نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہے کیونکہ کسی بھی گلوکار کو اپنا گانا ریکارڈ کرنے کے لیے پیسے چاہیے ہوتے ہیں اور پھر اس گانے کی ویڈیو بنانے کے بھی مزید پیسے چاہیے ہوتے ہیں، اس کے بعد بھی وہ صرف یوٹیوب کی آمدنی پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔ جبکہ برانڈ کے آجانے سے یہ معاملہ حل ہوجاتا ہے اور پھر اس گانے کی تشہیر بھی اچھی طرح ہوتی ہے جس سے پاکستانی موسیقی کو فائدہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ایک مرتبہ فرانس میں تھے اور ایک فرانسیسی خاتون نے انہیں ’کوک سٹوڈیو‘ کے حوالے سے پہنچانا، اس لیے اگر ’کوک سٹوڈیو‘ یا کسی اور پروگرام سے تخلیقی سطح پر اختلاف ہو بھی تو اس کی اہمیت کو ماننا ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان میں بھیڑ چال بھی شروع ہوجاتی ہے جو مناسب نہیں جیسے نئے فنکار برانڈز پر بہت زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں جس سے پھر ان کا اپنا کام نظر نہیں آتا کیونکہ موسیقی کی ترقی کے لیے اس کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔

علی ظفر نے مزید کہا کہ پاکستان میں کوئی ریکارڈ لیبل نہیں ہے، اگرچہ انہوں نے اپنا ریکارڈ لیبل ضرور بنایا ہے جس سے وہ نئے فنکاروں کی مدد کرتے ہیں مگر یہ ان کی ذاتی کاوش ہے اور کسی برانڈ نے مدد نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ برانڈ جو بھی ہو اس کا بنیادی مقصد اپنی فروخت میں اضافہ ہوتا ہے، موسیقی کی ترویج نہیں، اس لیے ضرورت ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری ادا کرے اور ملک کے بڑے چینلز پر موسیقی کو مناسب وقت دیا جائے۔

نامور موسیقار و گلوکار شیراز اپل نے پاکستان کے علاوہ کئی بالی وڈ فلموں کے لیے بھی گانے بنائے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جتنے بھی پلیٹ فارمز ہوں اتنا اچھا ہے کیونکہ جب کوئی کمپنی پلیٹ فارم بناتی ہے تو خود تشہیر بھی کرتی ہے جس سے فنکار کو فائدہ ہوتا ہے، مگر نئے گلوکاروں کو آگے لانے کی ضرورت بھی ہے۔‘

شیراز اپل کے مطابق انہوں نے ’کوک سٹوڈیو‘ میں کئی نئے گانے والوں کو مواقع فراہم کیے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نئے گانے بنائے جائیں کیونکہ اس وقت مسلسل پرانے گانوں ہی کو رگڑا جارہا ہے۔

انہوں نے روایتی موسیقی پر توجہ نہ ہونے کے اعتراض کو مسترد کیا کیونکہ ان کی رائے میں موسیقی بھی ارتقا کے عمل سے گزرتی ہے۔  ’اب کوئی  تان سین کی طرح ایک ساز پکڑ کر نہیں گاتا اسی طرح کسی گانے کی شہرت سننے والوں پر منحصر ہوتی ہے۔‘

شیراز اپل نے بھی تسلیم کیا کہ کسی برانڈ کا بنیادی مقصد موسیقی کی ترویج نہیں بلکہ اپنی تشہیر ہوتا ہے لیکن پسند کرنا یا نہ کرنا عوام کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔

البتہ انہوں نے زور دیا کہ ان پروگرامز میں گانوں کا ایک معیار مقرر ہونا چاہیے اور یہ معیار ملک میں پہلے سے ہی موجود ہے بس عمل کروانے کی ضرورت ہے۔

میوزک ڈائریکٹر شانی ارشد کے مطابق نامور برانڈز کے پروگرام بنانے سے میوزک پروڈیوسر پیسے کما رہے ہیں اور گلوکاروں کو پیسے لگائے بغیر گانے بنانے اور ان کی تشہیر کا موقع مل رہا ہے جس سے موسیقی کو مجموعی طور پر تو فائدہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موسیقی میں پیسے لگانے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ موسیقی سننا چاہتے ہیں تاہم یہ ادارے نامور گلوکاروں یا شخصیات کو اس لیے فوقیت دیتے ہیں کیونکہ اس وقت یہ سارا کام سرچ انجن پر منحصر ہے جس سے برانڈ کو فائدہ ہوتا ہے اور انہیں نئے گلوکاروں کو رکھنے سے فائدہ نہیں ہوتا۔

شانی ارشد نے کہا کہ 13 برسوں میں ’کوک سٹوڈیو‘ میں تو فوک میوزک بھی متعارف کروایا گیا ہے اور قوالی بھی پیش گئی ہے، جبکہ ’ویلو ساؤنڈ سٹیشن‘ تو تھا ہی پاپ میوزک سٹیشن اور ’بسکونی میوزک‘ اور ’کشمیر بیٹس‘ کا یہ پہلا پہلا سیزن تھا، اس لیے ابھی انہیں وقت چاہیے کہ وہ اپنا معیار بہتر کرسکیں۔

صحافی مہوش اعجاز نے اس بارے میں کہا کہ ان کے خیال میں ہمارے ملک میں موسیقی اور موسیقاروں کے پاس مواقع نہیں ہیں، ایسے پلیٹ فارمز کے ذریعے کم از کم نئی راہیں کھلتی ہیں.

انہوں نے کہا: ’ایک زمانے میں میوزک چینلز ہوتے تھے، اب وہ زمانہ ختم ہوگیا ہے اور ایپل میوزک اور  یو ٹیوب میوزک کا زمانہ آگیا ہے اور عوام کی پسند نا پسند بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔‘

ان کے بقول: ’پیسہ ہوگا تو ہی موسیقاروں محنت کریں گے ورنہ جیسے کچھ گانے والے ملک چھوڑ کے چلے گئے ہیں ویسے ہی آہستہ آہستہ باقی بھی ملک چھوڑ کے چلےجایئں گے۔‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ برانڈز کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویوز خریدنا سراسر زیادتی ہے، اسی طرح بلاگرز کو استعمال کرنا بھی ہو تو شفاف طریقے سے کرنا چاہیے جس میں عوام کو بھی پتہ ہو کہ پیسہ دے کہ کچھ لکھوایا یا کہلوایا بلوایا جا رہا ہے جیسا کہ اب انسٹا گرام کی پوسٹ میں شامل ہوتا ہے کہ ’یہ ایک مالی تعاون کے ساتھ کی گئی پوسٹ ہے‘۔

ان کا کہنا تھا: ’افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس بات کو سمجھنے اور اس کام کو کرنے کے لیے بہت ہمت چاہیے اور کارپوریشنز کا ہدف زیادہ سے زیادہ پیسہ یا لائیکس ہوتے ہیں، ضمیر نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی