افغانستان کے ہزارہ نوجوان مسلح گشت پر مجبور

غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کی ناکامی کے خوف، ملک کے دوبارہ خانہ جنگی کا شکار ہو جانے اور اپنی کمیونٹی پر حملوں کے پیش نظر ہزارہ برادری نے خود کو بدترین صورتحال کے لیے تیار کرنا شروع کردیا ہے۔

افغانستان کی اقلیتی ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے حمید اللہ اسدی کے  پاس صرف دو ہی آپشنز تھے، یا تو اگلے حملے کا انتظار کریں یا پہاڑوں پر ہزارہ برادری کی پھلتی پھولتی ملیشیا میں شامل ہوجائیں۔ انہوں نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا۔

داعش کے ایک خودکش حملے میں لگنے والے شدید زخموں سے صحت یاب ہونے کے کئی ماہ بعد اب وہ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

حمید اللہ اسدی وسطی افغانستان میں برف پوش پہاڑوں پر موجود ہزارہ جنگجوؤں کے ایک گروپ کے ترجمان بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ’ہم انصاف کے لیے مزاحمت کی تحریک چلا رہے ہیں۔ ہمیں ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔‘

افغان حکام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ان لوگوں نے ہماری توقعات پوری نہیں کیں جن کو ہمارا دفاع کرنا تھا۔‘

افغان سکیورٹی فورسز کو ملک سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد طالبان کے طاقتور گروپ کا سامنا ہے اور متحارب فریقین کے مابین امن مذاکرات کا عمل بھی سست روی کا شکار ہے۔

حکومت کی ناکامی کے خوف سے اور ملک کے ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو جانے کے خدشے کے بعد ہزارہ برادری نے بدترین صورتحال کے لیے خود کو تیار کرنا شروع کردیا ہے۔

افغانستان کی تقریباً چار کروڑ آبادی میں ہزارہ برادری کا حصہ 10 سے 20 فیصد ہے جنہیں ان کے فرقے اور نسل کی وجہ سے طویل عرصے سے ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اسدی 2016 میں کابل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے جب وہ ایک ریلی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔

اس حملے میں ہزارہ برادری کے 80 افراد ہلاک ہوئے، جو اس برادری پر نہ ختم ہونے والے حملوں کا پیش خیمہ تھا۔

اسدی کا کہنا ہے کہ اب وہ اس برادری کے ان ہزاروں مسلح جنگجوؤں میں سے ایک ہیں، جو اس ملیشیا کے کمانڈر عبدالغنی علی پور کے ایک حکم پر متحرک ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ علی پور ہزارہ برادری کے لیے رابن ہڈ کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس ملیشیا نے عسکریت پسندوں سے وابستہ افراد کو اغوا کرنے کے لیے طالبان کے علاقوں میں کئی چھاپہ مار حملے کیے ہیں، جنہیں بعد ازاں ہزارہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کیا گیا۔

دوسری عسکریت پسند تنظیموں کی طرح، ہزارہ ملیشیا کی بڑھتی ہوئی طاقت بھی افغان حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

ہزارہ برادری کے افغانستان میں کچھ اتحادی رہے ہیں اور ان کی الگ ایشیائی شناخت اور خصوصیات انہیں سخت گیر سنی تنظیموں کا آسان ہدف بناتی ہے۔

1990 کی دہائی میں ملک کی بدترین خانہ جنگی کے دوران انہیں بے رحمی سے مارا گیا اور بعد میں ملک پر طالبان کی حکومت کے دوران برادری کے ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت میں اس برادری نے کچھ حد تک سکون کا سانس لیا۔

ہزارہ برادری کے ہزاروں بچوں نے سکولوں اور تعلیمی اداروں میں داخلے لیے اور غیر معمولی تعداد میں ہزارہ رہنما سیاسی میدان میں بھی اترے، لیکن یہ کامیابیاں زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکیں۔

اس گروہ کو بڑھتے ہوئے تشدد کا دوبارہ اس وقت سامنا کرنا پڑا جب داعش کے خودکش بمباروں نے مغربی کابل میں واقع ہزارہ انکلیو میں ان کی مساجد، سکولوں، ریلیوں اور ہسپتالوں پر لا تعداد حملے کیے اور سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔

طالبان نے بھی ملک کی خطرناک شاہراہوں پر سفر کرنے والے ہزارہ گروپ کے افراد کو نشانہ بنایا ہے۔

ہزارہ برادری کی اہم کارکن اور انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ سیما ثمر نے کہا: ’یہاں تک کہ افغانستان میں امریکی یا نیٹو فوجیوں کی موجودگی کے باوجود ان کی بے چارگی برقرار رہی ہے۔‘

ہزارہ برادری کے لیے محفوظ ترین سمجھے جانے والے شہر بامیان سمیت کئی علاقوں سے اس برادری کے ہزاروں افراد فرار ہوچکے ہیں۔

ہزارہ برادری کے ایک رکن مراد علی حیدری کو امید ہے کہ (فرار ہونے کا یہ) یہ اقدام ان کے اہل خانہ کو تشدد سے بچائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا