کشمیر: بیٹے کی لاش کے انتظار میں خالی قبر پر فاتحہ پڑھتے والد

30 دسمبر کو بھارتی فوج کے مبینہ انکاؤنٹر میں مارے جانے والے 16 سالہ اطہر مشتاق کو فوج نے ان کے آبائی علاقے سے دور دفنا دیا۔ اطہر کے والدین کا مطالبہ ہے کہ میت انہیں دی جائے تاکہ وہ خود اپنے گاؤں میں دفنا سکیں۔

سری نگر سے 35 کلو میٹر دور جنوب میں فروری کے آغاز میں شدید سرد موسم کے 40 دنوں (چلے کلاں) کے بعد برف کے ٹکڑے ایک خالی قبر کو سفید چادر کی طرح ڈھانپ رہے ہیں۔

مشتاق احمد وانی اپنے بھائی اور رشتہ داروں کے ساتھ اپنے آبائی قبرستان میں موجود ہیں جہاں انہوں نے ایک ماہ قبل اپنے 16 سالہ بیٹے اطہر مشتاق کی قبر کھودی ہے جسے بھارتی فوج نے ایک متنازع جھڑپ میں دو عسکریت پسندوں کے ساتھ سری نگر کے نواح میں مار ڈالنے کا دعویٰ کیا تھا۔

30 دسمبر 2020 کو بھارتی فوج نے سری نگر کے نواح میں تین عسکریت پسندوں کو مار ڈالنے کا دعویٰ کیا تھا۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے بھارتی فوج کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کلو فورس کے جنرل ایچ ایس ساہی کا کہنا تھا کہ ان تین عسکریت پسندوں نے ایک ’بڑے حملے‘ کا منصوبہ بنا رکھا تھا جو بارہ مولہ سری نگر ہائی وے پر کرنا تھا اور انہوں نے جھڑپ کے دوران ہتھیار ڈالنے کی پیش کش مسترد کر دی تھیں۔

مارے جانے والے ان تینوں افراد کے اہل خانہ نے ان کی شناخت پٹریگرام کے 23 سالہ اعجاز غنی، شوپیاں کے زبیر احمد اور پلوامہ کے اطہر مشتاق کے ناموں سے کی گئی۔

ان کے اہل خانہ لاشوں کی شناخت کرنے کے لیے ہنگامی طور پر پولیس کنٹرول روم سری نگر پہنچے تھے۔ یہاں پہنچنے کے بعد ان لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور بھارتی فوج کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل عام کا نشانہ بننے والے عام شہری قرار دے دیا۔

اپنے اہل خانہ کے ساتھ اطہر کے والد پولیس سے اپنے بیٹے کی میت کو دیکھنے کی اجازت مانگ رہے تھے لیکن پولیس نے انہیں پولیس کنٹرول روم کے مرکزی دروازے پر روک لیا تھا۔ اہل خانہ باہر کھڑے اپنے بیٹوں کی لاشوں کو دیکھنے اور اس مطالبے پر مبنی نعرے لگاتے رہے لیکن کچھ دیر بعد یہاں افراتفری کی صورت حال بن گئی جب جمع لوگوں کو شک ہوا کہ یہاں سے باہر جاتے ایک ٹرک میں ان تین لاشوں کو یہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے۔

وہاں تعینات پولیس اہلکار ٹرک کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کرنے لگے اسی دوران فضا میں نعرے بلند ہوتے رہے۔ ان افراد کی لاشوں کو آبائی قبرستانوں سے دور ایک ایسی جگہ منتقل کیا جا رہا تھا جہاں بھارتی فوج جھڑپوں میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی لاشوں کو دفناتی ہے۔ ان کی لاشوں کے ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کیا جاتا۔

دنیا بھر میں کرونا وبا کے پھیلنے کے کئی ماہ بعد بھارتی فوج اپریل کے وسط تک کشمیری عسکریت پسندوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کر رہی تھی۔ پولیس کے سربراہ وجے کمار نے 28 اپریل 2020 کو میڈیا کو بتایا تھا کہ ان افراد کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے اس لیے نہیں کی جا رہیں تاکہ کووڈ 19 کے لاک ڈاؤن کی ہدایات پر عمل ممکن بنایا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

19 جنوری 2021 کو اطہر مشتاق کے اہل خانہ نے ان کے آبائی علاقے میں ایک مظاہرہ کیا۔ وہ اپنے گھر سے اپنے آبائی قبرستان تک گئے اور وہاں مشتاق احمد نے ایک قبر کھودتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ’حکومت میرے بیٹے کی لاش کیوں واپس نہیں کر رہی؟ میں ان کو لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور میں اپنے بیٹے کو رات میں دفنا دوں گا۔‘

کشمیر میں انسانی حقوق کے وکیل پرویز امروز کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’یہ بین الااقوامی انسانی حقوق اور جینیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔‘

کشمیر میں ان تین افراد کے قتل کے خلاف غم و غصے سے بھرے لوگوں کی جانب سے ری ٹرن دی باڈیز کا ہیش ٹیگ بھی چلتا رہا ہے۔

اطہر کی ہلاکت کے 35 دن بعد بھی اس کے اہل خانہ مسلسل اس بارے میں سوچ رہے ہیں۔ عبدالغنی وانی جو کہ اطہر کے دادا ہیں وہ کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے ہیں اور لوگ ان سے افسوس کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے:  ’میں نے اطہر کو گھر سے جانے کے بعد سے نہیں دیکھا۔ میں نے اس کی میت نہیں دیکھی۔ کاش وہ ہمیں اس کی لاش دے دیتے۔ ہم اس کی جائے مدفن تک سفر نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ بہت دور ہے۔‘

حکام نے اطہر اور باقی دو افراد کی لاشوں کو ان کے آبائی علاقے پلوامہ سے 115 کلو میٹر دور دفنایا ہے۔

اطہر کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ تب سے اس کی جائے مدفن نہیں جا سکے کیونکہ وہ بہت دور ہے لیکن اس کی قبر وہاں بھی برف سے ڈھکی ہو گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا