خیبر پختونخوا کی جامعات میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے پالیسی وضع کرنے کے حوالے سے دباؤ تو بڑھ رہا ہے لیکن پالیسی میں بعض خامیوں نے اسے موثر بنانے کی راہ میں رکاؤٹیں حائل کر دی ہیں۔
حال ہی میں خیبر پختونخوا کی بعض جامعات سے شکایات سامنے آنے کے بعد یونیورسٹیوں میں جنسی ہراسانی سے تحفظ کی پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں، گذشتہ ہفتےصوبےکے جنوبی اضلاع کی کل پانچ یونیورسٹیوں میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)نے جنسی ہراسانی کی پالیسی وضع کرکے رخ ان دیگر یونیورسٹیوں کی طرف کر لیا ہے جہاں ابھی بھی پالیسی بھیجنے اور ان کے تحت انکوائری کمیٹیاں بنانے کا کام باقی ہے۔
دوسری جانب، خیبر پختونخوا کی بعض جامعات میں سے جنسی ہراسانی کی پالیسی اور اس کے تحت بننے والی انکوائری کمیٹیوں پر اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں کہ جہاں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اس پالیسی کی من وعن پیروی نہیں کر رہی، وہیں اس قانون کے تحت قصوروار قرار دیے جانے والوں نے عدالت میں اس کی ایک شق کو چیلنج بھی کیا ہے۔
صوبائی محتسب رخشندہ ناز کے مطابق اگرچہ جنسی ہراسانی کی روک تھام کے لیے انکوائری کمیٹیاں بنانا اس وقت لازمی قرار دیا گیا تھا جب 2010 میں کام کرنے والی جگہوں پر جنسی ہراسانی کے خلاف قانون منظور ہوا تھا، تاہم اس قانون کی عملداری نہیں ہو سکی تھی۔
2019 میں مذکورہ قانون کے نفاذ کی خاطر صوبائی محتسب برائے انسداد ہراسیت ادارہ قائم کیا گیا، جس نے ستمبر 2019 تک 1200 سے زائد سرکاری اداروں کو خطوط ارسال کرکے انہیں انکوائری کمیٹیاں بنانے کی تنبیہ کی۔ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کی پالیسی اور انکوائری کمیٹیاں بنانا اسی سلسلے کی کڑی ہے، جسے ہائر ایجوکیشن کمیشن ریگولیٹری باڈی کی حیثیت سے لاگو کرنے کی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ واضح رہے کہ ایچ ای سی کو یہ اختیارات ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس 2002 کے تحت تفویض کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے کوہاٹ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے تعلقات عامہ کے آفیسر ذیشان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوہاٹ یونیورسٹی نے اسی وقت کمیٹی بنائی تھی جب صوبائی محتسب کی جانب سے انہیں خط موصول ہوا تھا، تاہم انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کی ایک شق ایسی ہے جس کو عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذیشان بنگش نے بتایا: ’تعلیمی اداروں کو بھیجی جانے والی جنسی ہراسانی سے تحفظ کی پالیسی کافی طویل اور تفصیلی ہے، جس میں گھورنے اور نظر کے اشارے سے بھی کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے، لہذا جب ہم نے بعض طلبہ کو سزا کے طور پر یونیورسٹی سے نکالا تو انہوں نے عدالت میں اس فیصلےکو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی کے قوانین کام کی جگہوں (دفاتر) پر ہراسانی کے لیے بنے ہیں جو طلبہ پر لاگو نہیں کیے جا سکتے۔‘
خیبر پختونخوا کے جنوب میں واقع گومل یونیورسٹی، جہاں کچھ عرصہ قبل جنسی ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، کے ایک عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ انکوائری کمیٹی میں جب تک باہر کے غیر جانبدار افراد شامل نہیں ہوں گے، مظلوموں کو انصاف نہیں ملے گا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پروفیسر صلاح الدین کیس میں یونیورسٹی تب تک ان کو بچاتی رہی جب تک سب کچھ ایک نجی ٹی وی چینل نے بے نقاب نہیں کیا تھا۔
متذکورہ عہدیدار نے مزید بتایا کہ اس پالیسی میں بعض قابل غور خامیاں ہیں، جن میں ترامیم لانا ازحد ضروری ہے۔
’میرے پاس ثبوت ہیں جن کے مطابق ہمارے ہی ادارے میں ایک اور ٹیچر کو ذاتی انتقام کی بھینٹ چڑھانے کے لیے ان پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے گئے۔ ایسے بھی ثبوت ہیں کہ جنسی ہراسانی کے خلاف بولنے والوں اور چشم دیدگواہوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ حالانکہ اصل مجرمان کو پالیسی کی خامیوں اور ان پر صحیح عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے تحفظ مل جاتا ہے۔‘
گومل یونیورسٹی کے مذکورہ عہدیدار نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کے خلاف بنائی جانے والی موجودہ انکوائری کمیٹی کے ارکان میں نہ تو ادارے کی انتظامیہ کا کوئی شخص شامل ہے اور نہ ہی کوئی وکیل جو ان قوانین کی نزاکت اور گہرائی کو سمجھ سکے۔
’کمیٹی میں اکیڈیمکیس کے اساتذہ کو شامل کر دیا گیا ہے جن کو کسی بھی وقت دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کمیٹی میں غیر جانبدار باہر کے لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہیے کیونکہ ایک ادارے کے لوگ ایک دوسرے کی خامیاں اور بدعنوانیاں چھپاتے پھرتے ہیں، بھلا وہ کیسے انصاف فراہم کریں گے۔‘
انہوں نے جنسی ہراسانی کی پالیسی میں خامیاں بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں شکایت کنندہ کے لیے انصاف کا ذکر تو ہے لیکن اگر اس کی شکایت جعلی ثابت ہو تو اس صورت میں شکایت کنندہ کے لیے سزا کا کوئی تصور اس پالیسی میں نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: ’سپریم کورٹ کے 2009 کے ایک فیصلے میں جنسی ہراسانی کے مقدمات میں نام نہ ظاہر کرنے والے مقدمات کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے لیکن تعلیمی اداروں میں اس پالیسی کے نام پر ’بے نامی‘ شکایات کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے، حالانکہ پالیسی میں ایسا نہیں کہا گیا ہے۔‘
چند ہفتے قبل پشاور کی تعلیمی درسگاہ اسلامیہ کالج میں بھی ایک طالبہ نے اپنے ٹیچر پر ہراسانی کے الزامات لگائے تھے، جس کے بعد طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے ادارے کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔ متاثرہ خاتون اور ان کے ہم جماعتوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو یہی شکایت کی تھی کہ کہنے کو تو انکوائری کمیٹی موجود ہے لیکن ان کی بارہا درخواستوں کے باوجود یہ کمیٹی کسی قسم کا ردعمل نہیں دے رہی۔
جنسی ہراسانی سے تحفظ کی پالیسی کیا ہے؟
ایچ ای سی کی جانب سے جنسی ہراسانی کے خلاف بنائی گئی پالیسی کا اطلاق کیمپس میں موجود اساتذہ، طلبہ اور ملازمین پر ہوتا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایک فوکل پرسن اور ایک انکوائری کمیٹی بننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ فوکل پرسن یا براہ راست کمیٹی کے کسی رکن سے رابطہ کرکے اپنی شکایت پہنچا سکتا ہے۔
پالیسی کے مطابق مجوزہ کمیٹی میں اسی ادارے کے تین ارکان ہوں گے، جس میں ایک خاتون اور دو مرد اس کا حصہ ہوں گے، جن کا انتخاب وائس چانسلر کرتا ہے۔ کمیٹی کے ارکان کے حوالے سے پالیسی مزید بتاتی ہے کہ کمیٹی کے ارکان اچھے کردار کے مالک، ایماندار اور دونوں جنسوں کے حوالے سے متوازن رائے رکھنے والے ہوں۔
پالیسی میں وائس چانسلر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ضرورت کے تحت وہ باہر سے بھی کسی کو انکوائری کمیٹی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔
اس پالیسی کی شق نمبر ایک کی دفعہ چھ میں لکھا گیا ہے کہ یہ پالیسی کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف بنائے گئے 2010 کے قانون کی دفعات کی روشنی میں بنائی گئی ہے، جو کہ یونیورسٹی سے متعلقہ تمام افراد کو کسی بھی قسم کی جنسی ہراسانی سے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔
جنسی ہراسانی کے خلاف بنائے گئے اس قانون کی رُو سے کسی بھی شکایت کے موصول ہونے کی صورت میں فوکل پرسن یا انکوائری کمیٹی کا کوئی بھی شخص تمام دیگر ارکان کو مطلع کرے گا، جس کے بعد کمیٹی تین دن کے اندر شکایت کی نوعیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر مزید کارروائی کرے گی۔
اس پالیسی میں جنسی ہراسانی کے مفہوم سے مراد کسی دوسرے شخص کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ جنسی پیشرفت، ترغیب یا جنسی فعل کے لیے امادہ کرنے کے لیے اس سے زبانی یا تحریری رابطہ کرنا ہے۔ اس سادہ مفہوم کے بعد پالیسی جنسی ہراسانی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالتی ہے جس میں نظر اور ہاتھ کے اشارے (جن سے جنسی ہراسانی کا تاثر ملتا ہو) بھی شامل ہیں۔