امریکی صدر جو بائیڈن گوانتانامو بے جیل بند کرنا چاہتے ہیں: وائٹ ہاؤس

جو بائیڈن کے دور صدارت میں کیوبا میں قائم جیل کی ممکنہ بندش کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں پوچھے جانے پر وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ ’یہ یقینی طور پر ہمارا مقصد اور ہمارے ارادوں میں شامل ہے۔‘

اس فوجی جیل میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں میں مبینہ طور مالی مدد فراہم کرنے کے الزام میں پاکستانی شہری خالد شیخ محمد بھی قید ہیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اپنی مدت صدارت کے خاتمے سے قبل مشتبہ دہشت گردوں کے لیے بنائی گئی بدنام زمانہ گوانتانامو بے جیل بند کرنا چاہتے ہیں۔ 

جو بائیڈن کے دور صدارت میں کیوبا میں قائم جیل کی ممکنہ بندش کے بارے میں ایک پریس کانفرنس میں پوچھے جانے پر وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ ’یہ یقینی طور پر ہمارا مقصد اور ہمارے ارادوں میں شامل ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ذریعے (قیدخانے کی) موجودہ صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ یہ ہمیں گذشتہ انتظامیہ سے وراثت میں ملا ہے۔‘

اپنی 2016 کی صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گوانتانامو جیل کو جاری رکھنے اور اسے ’برے لوگوں‘ سے بھرنے کا اعادہ کیا تھا اور صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ اپنے عہد پر قائم رہے۔

تاہم اس قیدخانے میں کچھ نظربند افراد کو ان کے پیش رو صدر اوباما نے گوانتانامو سے رہائی کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن وہ اس معاملے پر کبھی بھی کانگریس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یاد رہے کہ جو بائیڈن اوباما انتظامیہ میں نائب صدر تھے۔

اس فوجی جیل میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں میں مبینہ طور مالی مدد فراہم کرنے کے الزام میں پاکستانی شہری خالد شیخ محمد بھی قید ہیں۔

جیل میں شیخ خالد کے ساتھ اب بھی 40 کے قریب افراد قید ہیں جن میں سے 26 کو رہا کرنا انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے مقدمات کی پیچیدگی کے باوجود قانونی کارروائی جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما انتظامیہ کے گوانتانامو میں رکھے گئے قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لینے اور انھیں رہا کرنے کے موثر طریقہ کار کو ختم کر دیا تھا جس سے قیدیوں کی رہائی کی امید بھی دم توڑ گئی تھی لیکن جو بائیڈن کے انتخابات جیتنے کے بعد یہ امید پھر سے زندہ ہو گئی ہے۔

گوانتانامو کسی زمانے میں عالمی غم و غصے کا سبب اور دہشت گردی کی جنگ میں ضرورت سے زیادہ امریکی ردعمل کی علامت تھی لیکن صدر براک اوباما کی اسے بند کرنے کی کوششوں کے بعد یہ بڑے پیمانے پر سرخیوں سے ہٹ گئی تھی۔ 

یہ حراستی مرکز 2002 میں کھولا گیا جب صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 11 ستمبر، 2001 کے بعد القاعدہ اور طالبان سے روابط کے الزام میں گرفتار کیے گئے مشکوک افراد سے تفتیش اور انہیں قید کے لیے کیوبا کے جنوب مشرقی علاقے میں بحریہ کی ایک چوکی کو قید خانے میں تبدیل کر دیا تھا۔

گذشتہ برسوں کے دوران گوانتانامو میں نو قیدی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے سات نے بظاہر خود کشی کی، ایک کینسر اور ایک دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ