کرونا ویکسین تیار کرنے والی بھارتی لیبارٹری کا احوال

’سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا‘ کرونا ویکسین کی ماہانہ 10 کروڑ خوراکیں تیار کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ مغربی بھارت میں واقع اس فیکٹری کے خصوصی دورے کا احوال۔

پونے میں قائم سیرم انسٹیٹیوٹ کی تیار کردہ ویکسین ممبئی ایئرپورٹ پر لوڈ کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

گذشتہ سال جب کرونا (کورونا) کی وبا پھوٹ پڑی اور زندگی کا معمول بحال کرنے کے لیے دنیا بھر سے ویکسین کا مطالبہ ہونے لگا تو مغربی بھارت میں واقع ایک کمپنی بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے پراعتماد تھی کیونکہ وہ ایسے کسی لمحے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ کئی سال سے تیاری کر رہی تھی۔

1960 میں ایک خاندان کے ملکیت میں گھوڑوں کے فارم سے آغاز کرنے والی دوا ساز کمپنی ’دی سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا‘ (ایس آئی آئی) سالانہ 1.6 ارب سے زائد ویکسینیں بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے جس وجہ سے کوویڈ 19 کے خلاف جنگ میں اس کا مرکزی کردار ہے۔ اس کے مالکان ارب پتی پونا والا خاندان کے مطابق اس کی پیداواری صلاحیت کا دنیا بھر میں کوئی مقابلہ نہیں۔

اس بات کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ ویکسین کے افتتاح کے بعد انڈین حکومت بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ ایک ایسا ملک جو اپنے پڑوسیوں اور اتحادیوں کو لاکھوں ویکسینیں بطور تحفہ اور برآمد کر چکا ہے اس کے باوجود وہاں ایس آئی آئی کے کولڈ سٹور خزانے میں ساڑھے پانچ کروڑ سے زائد خوراکیں محفوظ ہیں۔

ایس آئی آئی نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور ایسٹرا زینیکا کے اشتراک سے ایسی ویکسین کی تیاری اور ٹیسٹ کا مرحلہ طے کیا جو موڈرنا اور فائزر جیسی حریف فارماسوٹیکل کمپنیوں کی تیار کردہ ویکسین کے مقابلے میں نہ صرف کم قیمت ہے بلکہ زیادہ آسانی سے سٹور کی جا سکتی ہے۔

اس کا مطلب تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ کیسز اور ایک لاکھ 56 ہزار اموات والے ملک بھارت کے لیے ہی امید کا مرکز نہیں بلکہ کئی ترقی یافتہ ممالک بھی بمبئی سے چار گھنٹے کی دوری پر پونہ میں واقع 43 ایکٹر رقبے پر مشتمل ایس آئی آئی کی طرف دیکھ رہے ہیں، جہاں دی انڈپینڈنٹ کی ٹیم نے اس ماہ خصوصی دورہ کیا۔

 موڈرنا اور فائزر اس سال کے اختتام تک بالترتیب ایک ارب اور دو ارب ویکسینیں تیار کرنے کے لیے پر امید ہیں جبکہ ایس آئی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے بقول وہ ان سے بڑی جست لگانے کے لیے پرعزم ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’ہم نے چھوٹے پیمانے پر اس کی تیاری شروع کی لیکن اب پانچ سے چھ کروڑ ویکسینیں ماہوار بنا رہے ہیں۔ اپریل سے اس کی ماہانہ تعداد 10 کروڑ تک جا پہنچے گی۔‘ اتنی بڑی تعداد شاید درکار بھی ہو کیونکہ ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی مختلف اقسام کو شکست دینے کے لیے سالانہ بنیادوں پہ ایسی تیز رفتار کارکردگی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ایس آئی آئی کی مرکزی عمارت ابھی بھی گھوڑوں کے فارم سے گِھری ہوئی ہے جبکہ اس کے اندر افسران بالا کے لیے گھوڑوں کی پینٹنگز اور مجسمے سجائے گئے ہیں، جو یاد دلاتے ہیں کہ یہ سب یہاں سے شروع ہوا تھا۔

کنکریٹ اور شیشے سے بنی فیکڑی کی دو وسیع عمارتیں اور عملے کے لیے نئی تعمیر کردہ کیمپس کی عمارت کرونا وائرس ویکسین کی تیاری کے لیے مختص ہے جہاں مختلف سطحوں پر روزانہ کم و بیش ایک ہزار افراد کام کر رہے ہوتے ہیں۔

لیبارٹری کے سخت احتیاطی ماحول میں تمام عملہ سفید لباس میں ملبوس، فیس ماسک اور حفاظتی چشمے لگائے رہتا ہے۔ جدید ترین آلات سے لیس پیداواری یونٹس میں بائیو ری ایکٹرز بھی شامل ہیں جو دو منزلہ اونچے اور 500 بوتلیں فی منٹ بھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

2020 کے آغاز سے اپنی صلاحیت کو پوری طرح بروئے کار لاتے ہوئے فیکڑی نہایت تیزی سے ترقی پذیر ممالک کے لیے کم قیمت ویکسین کی فراہمی کے مشکل ہدف کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

ڈاکٹر یا دیو کہتے ہیں، ’اگر آپ کرہ ارض کی ساری آبادی کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک ارب 60 کروڑ ویکسینیں درکار ہوں گی۔ اتنی گنجائش کسی کی نہیں۔‘

 ویکسین کے اعلان کے ساتھ ہی جب ترقی یافتہ ممالک نے خرید کر سٹور کرنا شروع کر دی تو ایس آئی آئی نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو چند دیگر کمپنیوں نے کیا کہ فوری معاہدہ کرنے والے ممالک کے لیے ویکسین کی بڑے پیمانے پر تیاری اور اس کی کامیابی سے ہمکنار ہونے کی ضمانت کے بغیر بنانے کا آغاز۔

ایس آئی آئی کے میڈیکل ڈاکٹر پرساد کلکرنی کہتے ہیں کہ ادویات تیار کرنے والے ادارے معمول کے مطابق صرف اسی وقت دوا تیار کرتے ہیں جب ابتدائی تجربے کے بعد ریگولیٹری ادارے سے مکمل اور حتمی منظوری مل جائے لیکن ’ہم نے کرونا ویکسین کا آغاز ہی بڑے پیمانے پر کیا تاکہ یہ پہلے سے تیار پڑی ہو۔‘

وہ کہتے ہیں، ’ہمارے پاس وقت بہت ہی کم تھا سو ہم نے مالی خطرہ مول لیتے ہوئے خود ہی اس کی منظوری دی اور اس لیے اتنی بڑی مقدار میں اس کی تیاری ممکن ہوئی۔'

جن مقامات پر اس کی تیاری کا عمل جاری تھا وہاں وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے انسانی آمد و رفت کم سے کم رکھی گئی۔ یونٹ کے کنارے چھوٹی سی گیلری میں کھڑے ہو کر آپ بڑی کھڑکیوں سے دیکھ سکتے ہیں کہ صرف بنیادی عملے کو اندر جانے کی اجازت ہے۔

ویکسین تیار کرنے والا عملہ بذات خود تین حصوں میں تقسیم ہے: پروڈکشن، فلنگ اینڈ لیبلنگ اور سٹورج، جہاں ہر شیشی کو جانچ پڑتال کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

تیاری کے ابتدائی مرحلے میں سیلز کی سنگل یوز بائیو ری ایکٹرز میں تیاری کی جاتی ہے۔ اس کے بعد تشکیل کے لیے یہ مائع بڑے ٹینکوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ آٹھ گھنٹے پر مشتمل تین شفٹوں میں ہر وقت کئی افراد اس مرحلے کی نگرانی کے لیے موجود رہتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں شیشی کی خود ساختہ صفائی کا عمل شامل ہے جہاں شیشے کی بوتلیں تیز رفتار ابلتے پانی اور انتہائی گرم ٹنلز سے گزاری جاتیں ہیں تاکہ جراثیم سے مکمل پاک ہو جائیں۔ بڑی مشینیں پھر بوتلوں کو بھرتیں، بند کرتیں اور ربڑ کی مہریں لگا دیتی ہیں۔ ایک منٹ میں پانچ ہزار بوتلوں کو نبٹایا جاتا ہے اور مزید جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کمپنی یہ مقدار دگنی کرنے کے لیے پرامید ہے۔

اس کے بعد بوتلیں لیبل سازی کے لیے مشینوں سے گزرتی ہیں جہاں ان پر مطلوبہ برانڈ، بھارت میں آکسفورڈ - ایسٹرا زینیکا کی ’کووی شیلڈ‘ کے نام سے تشہیر کی گئی، کی چھاپ لگائی جاتی ہے اور اس کے بعد ڈبوں میں بند کر کے حفاظتی دستوں کے زیر انتظام گودام میں منفی چار ڈگری سیلسیئس کے درجہ حرارت میں رکھا جاتا ہے۔

کمپنی نے خود کو ایسٹرا زینیکا تک محدود نہیں رکھا، اور اس کے پاس چار اور امیدوار بھی ہیں۔ فروری کے آغاز میں امریکی ساختہ نواویکس تیار کرنے اور بھارت میں استعمال کرنے کی درخواست بھی وصول ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہیپٹائٹس بی کے سدباب کے لیے بھی اپنی ویکسین پیش کرنے کے لیے پرامید ہے۔

ایس آئی آئی نے بھارت سے ہٹ کر کم اور اوسط درجے کے مالی وسائل والے ممالک کے لیے 2021 میں ایک ارب ویکسینیں فراہم کرنے کا عہد کیا ہے۔ ایس آئی آئی کے چیف ایگزیکٹو ادر پونے والا دی انڈپینڈنٹ کو بتاتے ہیں کہ ’سیرم انسٹی ٹیوٹ واحد کمپنی ہے جس کا جھکاؤ غریب ممالک کی طرف ہے کیونکہ صرف ہم ہی ہیں جو ( ویکسین) غریب ممالک کو دے رہے ہیں۔‘

ایس آئی آئی اب اپنی ویکسینیں 210 بھارتی روپے (دو برطانوی پاؤنڈ) فی خوراک کے رعایتی نرخوں پر انڈین حکومت کو بیچ رہا ہے اور اس طرح سب سے بڑے معاون کے طور پر سامنے آیا ہے جو پہلے مرحلے میں 300 ملین ضرورت مند اور بزرگ انڈین شہریوں تک انجیکشن فراہمی کے لیے پر عزم ہے۔

پونے والا کہتے ہیں ترقی پذیر ممالک کو ویکسین پہنچانے میں ایس آئی آئی کی مؤثر اجارہ داری ہے۔ وہ کہتے ہیں 'باقی کمپنیاں بہت مہنگے داموں فروخت کر رہی ہیں۔ ہم بھی ایک ویکسین 10 سے 20 ڈالر میں بیچ سکتے تھے لیکن میں نے وبا کے مشکل لمحوں میں بھاری منافع سے گریز کا راستہ اپنایا۔' پونے والا مزید کہتے ہیں کہ کم از کم 'دوسال تک ایسا ہی رہے گا' جس کا مطلب ہے اس کے بعد قیمتیں بڑھنے کا امکان ہے۔

ایس آئی آئی کا وسیع کاروبار 40 سالہ وارث کو اپنے باپ سائرس سے ملا جو گذشتہ دس برس سے چیف ایگزیکٹو اور تب سے چھوٹے پونے والا شاہ خرچی اور بڑی بڑی کاروں کے شوق کی وجہ سے مشہور ہیں ۔

بلوم برگ بلیئنیئر انڈیکس کے مطابق ایس آئی آئی کے مالیت میں صرف 2020 میں ہی 85 فیصد اضافہ ہوا اور اس کے ساتھ آج اس خاندان کی دولت 10 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

آدر پونے والا کے آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا ویکسین میں سرمایہ کاری کے فیصلے نے ایک سال سے بھی کم عرصے میں ان کا امیج عوام میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ لیکن کمپنی کے ساتھ گزشتہ چار دہائیوں سے منسلک ڈاکٹر یادیو پونے والوں کے وبا سے پہلے اتنی گنجائش بڑھانے کے فیصلے کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کی بدولت وہ اب بڑھتی ہو مانگ کو پورا کرنے کے قابل ہیں۔

ڈاکٹر یادیو کہتے ہیں، ’میں 42 سال سے یہاں ہوں مجھے ایک بھی ایسا دن یاد نہیں جب نئی تعمیرات پر کام جاری نہ ہو۔ ہماری پاس پہلے سے پانچ چھ اضافی عمارتیں نئی مصنوعات کے لیے تیار تھیں سو ویکسین کی تیاری کے لیے ہم نے انہیں استعمال کر لیا۔

’ہمیں تھوڑا بہت سامان ادھر سے ادھر کرنا پڑا لیکن تقریباً ہم تیار تھے۔‘

ایس آئی آئی میں تحقیق اور ترقی کے سربراہ ڈاکٹر امیش شالیگرام کے مطابق آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا سے اشتراک فطری تھا کہ ماضی میں بھی دونوں پارٹیاں مل کر کام کر چکی ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ’ہم جدید آلات کے استعمال اور بڑے پیمانے پر مصنوعات تیار کرنے کے لیے معروف ہیں جسے ہم نے سچ کر دکھایا۔ انہوں نے اسے تیار کیا اور طبی بنیادوں پر اس کو درست ثابت کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2020 میں کمپنی نے آکسفورڈ ایسٹرا زینیکا ویکسین کے لیے ٹیکنالوجی وصول کی۔ یکم جنوری کو جب انڈین حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر کمپنی کو ویکسین تیار کرنے کے احکامات جاری کیے تو ایس آئی آئی پہلے ہی پانچ کروڑ خوراکیں تیار کیے بیٹھی تھی۔

پونے والا کہتے ہیں اگرچہ وہ وبا کے بارے پیشگی علم کا دعویٰ نہیں کر سکتے لیکن دنیا میں صحت کے متعلق ایسے کسی بحران کا امکان ان کے مدنظر ضرور تھا۔

وہ کہتے ہیں 'یقیناً میرے ذہن کے کسی گوشے میں تھا کہ اگر دنیا میں وبا جیسی کوئی چیز پھوٹ پڑی تو ہم کیسے مصنوعات کی تیز رفتار تیاری، گودام اور کولڈ سٹورج جیسے معاملات سے نمٹیں گے جن کا سامنا کرتے ہوئے دوسروں کو اب مشکل کا سامنا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’اپنی وسیع و عریض گنجائش کی بدولت ہم پہلے ہی بہت ساری تیاری کر چکے تھے ( جس کا مطلب ہے ) ہمارے لیے ایسی (وبا جیسی) صورت حال کا سامنا نسبتاً آسان تھا۔‘

آج بھارت میں ویکسین کی پہلی خوراک سے مستفید ہونے والے افراد کی تعداد ایک کروڑ کی حد عبور کر چکی ہے اور ایس آئی آئی کی تیار کردہ یہ ویکسین دنیا بھر کے ڈاکٹر استعمال کر رہے ہیں۔ پونے والا کہتے ہیں 'اب ہماری باری ہے کہ اس وبا سے نجات کے لیے اہم کردار ادا کریں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت