موٹروے ریپ کیس: متاثرہ خاتون کی جیل میں لگی عدالت میں پیشی

موٹروے ریپ  کیس کی متاثرہ خاتون نے لاہور کیمپ جیل میں لگائی جانے والی خصوصی عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کر وا دیا ہے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ان کے بچے بھی موجود تھے۔

موٹر وے ریپ کیس نو ستمبر 2020 کو لاہور سیالکوٹ موٹروے پر تھانہ گجرپورہ کی حدود میں پیش آیا تھا (اے ایف پی)

موٹروے ریپ  کیس کی متاثرہ خاتون نے لاہور کیمپ جیل میں لگائی جانے والی خصوصی عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کر وا دیا ہے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ ان کے بچے بھی موجود تھے۔

لاہور کی انسداددہشت گردی کی عدالت کے جج ارشد حسین بھٹہ نے اس کیس کی سماعت کی۔

پراسیکیوشن کی تین رکنی ٹیم کے ایک رکن وقار بھٹی نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ جیل میں لگائی جانے والی خصوصی عدالت میں اس کیس کی پانچویں سماعت میں متاثرہ خاتون نے عدالت میں اپنے بچوں سمیت پیش ہو کر  اپنا بیان قلم بند کروایا.

انہوں نے بتایا کہ  عدالت نے بچوں کے کم عمر ہونے پر ان کے بیان ریکارڈ نہ کرنے کا حکم دیا ۔

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون نے کمرہ عدالت میں عابد ملہی اور شفقت عرف بگا کی شناخت کی اور  مکمل واقعے سے متعلق عدالت کو بتایا۔

خصوصی عدالت نے عابد ملہی اور شفقت بگا کا ڈی این اے لینے والے افراد کا بھی بیان ریکارڈ کیا۔ عدالت نے انسپکٹر محمد سلیم کا بیان بھی قلمبند کیا جنہیں  متاثرہ خاتون نے نام خفیہ رکھنے کا کہا تھا۔

واضح رہے کہ اب تک اس کیس میں اے ایس آئی دانیال اشرف اور اے ایس آئی محمد یوسف سمیت 30 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا چکے ہیں۔

کیس کی اگلی سماعت 13 مارچ کو  اسی عدالت میں کی جائے گی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خصوصی عدالت جیل میں کیوں لگائی گئی؟

اس کیس کی پراسیکیوشن ٹیم کے رکن وکیل رؤف وٹو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انسداد دہشت کردی ایکٹ کے تحت کیس جیل میں سنا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جیلوں میں عدالتیں بنی ہوئی ہیں جہاں  وہ کیس سنے جاتے ہیں جن میں گواہان کی سکیورٹی کو خطرہ یا ان کی شناخت نہ ظاہر کرنی ہو.

اس کیس میں ویسے بھی پنجاب حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا کہ یہ کیس جیل میں سنا جائے کیونکہ متاثرہ خاتون اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اس کے علاو  بھی ایسی نوعیت کے دیگر کیسز جیلوں میں بنی عدالتوں میں سنے جاتے ہیں جس کی ایک مثال زینب ریپ اور قتل کیس ہے جس کی سماعت بھی جیل کی خصوصی عدالت میں ہی ہوئی تھی.

کرمنل کیسسز کے ماہر وکیل سید فرہاد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایسے حساس کیسسز  میں جس میں عوام کے جذبات مجروح ہوئے ہوں یا ان میں غم و غصہ پایا جاتا ہو تو  اس میں ملزمان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں عدالت کے راستے میں کوئی گروہ اشتعال میں آکر ان پر جان لیوا حملہ نہ کر دے۔

انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ ایسے کیز جیلوں کے اندر ہی سننے کو ترخیح دی جاتی ہے۔

موٹر وے ریپ کیس نو ستمبر 2020 کو لاہور سیالکوٹ موٹروے پر تھانہ گجرپورہ کی حدود میں پیش آیا تھا۔

اس واقعے کے ایک ملزم شفقت علی کو پولیس نے واقعے کے چند روز بعد ہی گرفتار کر لیا تھا جبکہ مرکزی ملزم عابد ملہی کو گذشتہ برس 12 اکتوبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان