تھر فیسٹیول: ’ہمیں تو صرف سستا آٹا چاہیے‘

تھرپارکر کو ’دبئی‘ بنانے کے خواب پتہ نہیں کب تکمیل کو پہنچیں گے، لیکن ہاں، کارپوریٹ کمپنیوں کے کچھ افراد یقیناً جنگل میں منگل بنائے زندگی کے بھرپور مزے لے رہے ہیں۔

ایک سماجی کارکن  کے مطابق: تھر فیسٹیول کا مقصد کیا ہے؟ دنیا کو لوگوں کی غربت دکھا کر ان کے نام پر اور زیادہ پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ سرکاری بجٹ ہڑپ کرنا؟ (تصویر: منیش کمار)

تھرپارکر ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ ویسے تو ہر روز ہی یہاں سے خبریں آتی ہیں بچوں کی اموات کی، کمزور ماؤں کی دوران زچگی انتقال کی، خودکشیوں کی۔ لیکن یہ خبر ایک فیسٹیول کی ہے، جمعے سے شروع ہونے والا یہ تین روزہ فیسٹیول حکومت سندھ اور تھر فاؤنڈیشن سمیت کئی کمپنیاں مل کر کروا رہی ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ کا یہ صحرائی ضلع انسانی ترقی کی فہرست میں بہت نچلی سطح پر ہے۔ تھرپارکر کو ’دبئی‘ بنانے کے خواب پتہ نہیں کب تکمیل کو پہنچیں گے، لیکن ہاں، کارپوریٹ کمپنیوں کے کچھ افراد یقیناً جنگل میں منگل بنائے زندگی کے بھرپور مزے لے رہے ہیں۔

تھرپارکر صوبہ سندھ کے ان دو اضلاع میں سے ایک ہے، جہاں کی 16 لاکھ آبادی میں سے آدھی آبادی غیر مسلم یعنی ہندو ہے۔ ان میں سے بھی آدھی سے زیادہ آبادی کا تعلق ’نچلی‘ ذاتوں سے ہے، جن میں خاص طور پر بھیل، کولہی، میگھواڑ، ریباری اور جوگی وغیرہ آ جاتے ہیں۔

بیشتر لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگیاں گزار رہے ہیں۔ روزگار کے وسائل تو پہلے ہی کم تھے لیکن اب زیادہ سکڑتے جا رہے ہیں، کیوں کہ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر گزارہ کھیتی باڑی اور مال مویشی پر ہوتا ہے۔ گذشتہ دہائیوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشیں کم اور قحط زیادہ پڑ رہے ہیں۔ اگر بارشیں ہوتی بھی ہیں تو ان کا پیٹرن تبدیل ہو چکا ہے۔

جو بارشیں مئی کے ماہ میں ہوتی تھیں وہ اب اگست یا ستمبر میں ہو رہی ہیں، جس کے باعث زیادہ اناج نہیں ہو سکتا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ انگریز دور سے آج تک یہ طے ہے کہ اگر 15 اگست تک اچھی بارشیں نہیں پڑیں تو صحرائے تھر کو قحط زدہ قرار دیا جاتا ہے۔

روزگار کا دوسرا بڑا وسیلہ مال مویشی ہے، لیکن جب وقت پر اچھی بارشیں نہیں پڑ رہیں تو گھاس کہاں سے اُگے گی؟ اب یہ صورتحال زیادہ گھمبیر ہونی ہے۔ ماہرین کے مطابق تھر سے کوئلہ نکالنے کے بعد ماحولیات زیادہ بگڑے گی اور لوگوں کے لیے اور دشواریاں پیدا ہو جائیں گی۔ واضح رہے کہ تھرپارکر کی کل آبادی کا 25 فیصد کول فیلڈ کے دائرے میں آتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس اکیسویں صدی میں تھرپارکر کی فقط پانچ فیصد آبادی ایسی ہے جس کو پینے کے لائق پانی دستیاب ہے، باقی 95 فیصد آبادی مضر صحت پانی پی رہی ہے، جو زیادہ تر کنویں اور ہینڈ پمپس سے آتا ہے، لیکن اب کوئلے کے ذخائر دریافت ہونے کے بعد وہاں کام جاری ہے، کوئلے تک پہنچنے کے لیے زیر زمین پانی نکال کر ڈیم بھرے جا رہے ہیں، جس کا اثر یہ پڑ رہا ہے کہ صحرائے تھر جہاں زیر زمین پانی بارشوں سے چارج ہوتا ہے، وہ تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ 95 فیصد آبادی کو اس وقت جو مضر صحت پانی مل رہا ہے ایک دن وہ بھی ختم ہو جائے گا۔

بھوک اور بدحالی کا عالم یہ ہے کہ ایک برطانوی ادارے کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2021 کے پہلے تین ماہ میں خودکشی کے 23 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین ہیں اور ان کا تعلق ہندو برادری کی ’نچلی‘ ذاتوں سے ہے۔  رپورٹ کے مطابق ضلع تھرپارکر میں اوسطاً ہر سال 70 خودکشیاں ہوتی ہیں اور اس رجحان میں اب اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔  تھر کے سماجی رہنما ڈاکٹر سونو کہنگھارانی کے مطابق ضلح تھرپارکر میں 80 فصد آبادی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئے ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کی پوری معیشت ہی قرضوں پر چل رہی ہے۔

’ تھرپارکر کے ایک سماجی کارکن نے بتایا: ’تھرپارکر میں روڈ تو اچھے بنے ہوئے ہیں لیکن کس کے لیے؟ کیوں کہ عام غریب لوگوں کے پاس نہ تو وہ گاڑیاں ہیں اور نہ ہی ان گاڑیوں میں سفر کرنے جتنا پیسا۔ اسی طرح تھر کول منصوبے کو بھی ہم اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ وہاں صدیوں سے بسنے والے لوگوں کے پیروں کے نیچے سے زمیں نکالی جا رہی ہے۔ ان کو ملازمتوں کی امید تھی وہ بھی مدھم پڑ چکی ہے۔ کیوں کہ زیادہ تر باہر کے یا پھر سفارشی لوگ رکھے گئے ہیں۔‘

’ایسی صورتحال میں تھر فیسٹیول کا مقصد کیا ہے؟ دنیا کو لوگوں کی غربت دکھا کر ان کے نام پر اور زیادہ پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ سرکاری بجٹ ہڑپ کرنا؟ تھر فیسٹیول سے غریب لوگوں کو کیا ملے گا؟ انہیں تو نمائش سے زیادہ سستے آٹے کی ضرورت ہے!‘

ہونا یہ چاہیے کہ حکومتیں، ادارے اور کارپوریٹ کمپنیاں لوگوں کو نئے انداز میں جینے کی تربیت دیں، مثلاً اگر فصلیں نہ ہوں تو بھوک کیسے مٹائی جائے۔ اگر زیر زمین پانی ختم ہو جائے تو پیاس کیسے بجھائی جائے؟ تھر کی آب و ہوا گدلی ہو جانے کے بعد صاف سھتری ہوا کیسے حاصل کی جائے اور اگر ایک دن صحرائے تھر رہنے کے قابل نہ رہے تو وہ کہاں جائیں، کیا کریں؟

کیوں کہ جب صحرائے تھر ’دبئی‘ بن گیا تو یہ لوگ کہاں جائیں گے، جن کے پاس صحرا کی سادہ زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی مہارت نہیں ہے!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ