سینیٹ الیکشن: ’خفیہ اداروں کی رپورٹس سزا دینے کے لیے ناکافی‘

سینیٹ الیکشن کے بعد ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی وزیراعظم کی جانب سے دیئے گئے ایک بیان سے یہ تاثر ابھرا تھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن کی بنا پر سینیٹ میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر کارروائی ہوسکتی ہے۔

تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی جگہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے تھے (فائل تصویر: اے ایف پی)

سینیٹ الیکشن کے بعد چھ مارچ کو ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیتے ہی وزیراعظم عمران خان نے پارلیمان میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو سینیٹ میں کرپشن پر خفیہ اداروں سے بریفنگ لینی چاہیے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے یہ تاثر ابھرا کہ خفیہ ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں، جن کی بنا پر سینیٹ میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر کارروائی ہوسکتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری سے رابطہ کیا اور ان سے سوال کیا کہ اگر حکومت اور ایجنسیوں کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں تو اسے عدالتوں میں کیوں نہیں لایا جاتا؟

جس پر وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ ’خفیہ اداروں کی رپورٹس کرپشن کی سزا دینے کے لیے ناکافی ہیں۔‘

فواد چوہدری نے کہا: ’ایک نظریاتی رائے ہوتی ہے اور ایک ٹھوس معلومات ہوتی ہے۔ ایجنسیز کی رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح سے پلاننگ ہوئی اور وہاں پر کیا اور کیسے ہوا، لیکن یقین تو باضابطہ حقیقی شواہد سے ہی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جب تک مخصوص ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں تو کیسے اسے عدالتوں میں لے جایا جا سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب تک باقاعدہ شواہد نہیں ہوں گے، صرف گواہی کی قانونی اہمیت نہیں ہو گی۔‘

فواد چوہدری نے کہا کہ ’اس سے الیکشن کمیشن کو اپنی رائے بنانے میں تو مدد ضرور ملے گی لیکن کسی کو کرپشن کی سزا دینے کے لیے صرف رپورٹس پر توکل نہیں کیا جاسکتا۔‘

حکومت کیوں ان شواہد کی بنیاد پر قانونی کارروائی نہیں کر رہی؟

اس حوالے سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر رپورٹس کے ساتھ ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں تو پھر ان کی بنیاد پر کارروائی ہو سکتی ہے لیکن یہ کارروائی حکومت نہیں کرے گی کیونکہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار اور آئینی ادارہ ہے، سینیٹ الیکشن کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کا ہے اور اگر اس معاملے پر کوئی کرپشن ہوئی ہے تو اس کو عدالت میں لے جانے کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کا ہی ہے۔ ‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان رپورٹس کی بنیاد پر سزا ہو سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم پاکستان جس عہدے پر ہوتے ہیں وہ ملک کے اندرونی و بیرونی حالات سے مکمل آگاہ ہیں، سب خفیہ ادارے ان کے ماتحت ہیں اور وہ وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ہر رپورٹ شیئر کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اگر وزیراعظم نے الیکشن کمیشن کو نشاندہی کی ہے کہ اسے خفیہ اداروں سے سینیٹ کرپشن معاملے پر بریفنگ لینی چاہیے تو اس کا مطلب ہے کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس میں ضرور کچھ ٹھوس ہوگا۔‘

فیصل چوہدری نے مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کے پاس اپنے اختیارات ہیں، وہ چاہیں تو خود بھی فیصلہ لے سکتے ہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن اگر معاملہ اٹھائے گا تو زیادہ مستند ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خفیہ اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ اندرونی حالات پر بھی مکمل نظر رکھیں۔ ایوان میں جنہوں نے کرپشن کی ان کی تعداد کم ہے اور زیادہ تر لوگوں نے آزادی اور ایمانداری سے اپنا حق ادا کیا۔ ‘

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’جب تک خفیہ اداروں کے شواہد سامنے نہیں آتے ان پر حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔‘

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسہ چلا ہے اور دو کروڑ سے ریٹ شروع ہوا ہے جبکہ شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا کام تھا۔

خیال رہے کہ تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات حکومتی خواہش کے برعکس اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق خفیہ بیلٹ سے ہوئے تھے جبکہ حکومت کا موقف یہ تھا کہ انتخابات خفیہ نہ ہوں تاکہ ہارس ٹریڈنگ کو روکا جاسکے۔ سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد کی نشست پر حکومتی امیدوار عبدالحفیظ شیخ کی جگہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے تھے، جس کے بعد حکومت نے اپوزیشن پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے جیتنے کے لیے ووٹ خریدے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان