پاکستانی ہوائی لغت جو کبھی متروک نہیں ہوتی

ایسا لگتا ہے کہ شروع سے آخر تک کوئی ایک ہی تقریر نویس ہے جو ہر حکمران کی تقریر لکھتا چلا آیا ہے۔

27  ستمبر  2019 کو وزیر اعظم  عمران خان   اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستانی بڑے مستقل مزاج لوگ ہیں۔ ان کے کچھ اپنے الفاظ اور مخصوص فقرے ہیں جو رت آئے رت جائے، جنگ ہو یا امن، مارشل لا ہو یا جمہوریت، حکمرانوں اور رہنماؤں کی زبان پر رہتے ہیں اور جن کی تکرار مسلسل جاری رہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شروع سے آخر تک کوئی ایک ہی تقریر نویس ہے جو ہر حکمران کی تقریر لکھتا چلا آیا ہے۔

ان تقاریر کا ایک جائزہ یہاں ملاحظہ کیجیے۔

1۔ شدید الفاظ میں مذمت اور نوٹس لے لیا

کوئی واقعہ ہو تو اس کے بعد سب سے پہلے حکومتی اراکین جو کام کرتے ہیں وہ نوٹس لینا ہوتا ہے۔ نوٹس لے لیا اور پھر ذمہ داری ختم۔ یہ واحد کام ہے جو حکومت اور رہنما فوری طور پر کرتے ہیں، یعنی کہ ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس واقعے کا فی الفور نوٹس لیتے ہیں۔

2۔ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے

کوئی بھی واقعہ رونما ہو تو مذمت کے بعد سب سے پہلے تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتی ہے۔ جب ہم نے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی بٹھائی تو اس کی رپورٹ یہ آئی کہ ملک کی تاریخ میں بننے والی ہزاروں کمیٹیوں میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہوگی جس نے اپنا کام پورا کیا ہو گا۔ بقیہ سب کی کارگزاری فقط کاغذوں تک ہی محدود رہی۔

3۔ آئین سے کوئی بھی ماورا نہیں ہے

یہ جملہ نہیں ہے بلکہ مذاق ہے اور وہ بھی عوام کے ساتھ۔ آئین کے ساتھ جس جس نے جب جب کھلواڑ کیا اس کو سزا نہ ملی بلکہ الٹا پروٹوکول ہی ملا۔ مگر کہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ آئین سے ہر وہ شخص ماورا ہے جو طاقتور اور مالدار ہے اور وہ ان ہی دو چیزوں کے سہارے آئین کا اکثر مذاق اڑاتے پھرتے ہیں۔

4۔ میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے

میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے، یہ جملہ اکثر سننے میں آتا ہے اور میڈیا کے ہی توسط سے آتا ہے اور ان لوگوں سے آتا ہے جو زبردستی چینلز اور میڈیا ایجنسیز کو کال کرکے اپنی مرضی کی خبریں چلواتے ہیں اور اپنی نا پسند یدہ خبریں رکواتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

5۔ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے

پاکستان کو بنے ہوئے 73 سال ہوگئے اور شاید ہی کوئی ایسا سال ہو جس میں یہ جملہ نہ بولا گیا ہو۔ نہ جانے کتنا سخت جان نازک دور ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔

6۔ غیر ملکی عناصر ملک کی بنیادیں کمزور کر رہے ہیں

ایک تو یہ غیر ملکی عناصر بھی بڑے عجیب ہیں جن کے شناختی کارڈ بھی پاکستانی ہوتے ہیں اور حلیہ بھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ غیر ملکی تو پاکستان کے خلاف ہوں گے ہی، مگر ان کے آلہ کار تو مقامی لوگ بنتے ہیں، کم سے کم ان آلہ کار کو اپنے سے دور کر دیں، پھر دیکھیے۔

7۔ کسی کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی

یہ فقرہ ہم بچپن سے سنتے چلے آئے ہیں لیکن آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا قانون شکن عناصر پہلے آپ سے اجازت لیتے ہیں اس کے بعد وہ بم دھماکے کرتے ہیں یا ڈاکے ڈالتے ہیں؟ اگر انہوں نے اجازت مانگی ہی نہیں تو پھر انہیں اجازت دینے کا کیا مقصد ہے؟ اور بھلا اجازت لے کر کون پاگل حملہ کرے گا؟ دہشت گرد مجرم ضرور ہیں، بےوقوف نہیں۔

8۔ کسی کو این آر او نہیں دوں گا

اس فقرے کا تعلق بھی اوپر والے فقرے سے ہے۔ حزبِ اختلاف والے کہہ کہہ کر تھک چکے ہیں کہ ہم نے این آر او نہیں مانگا، بلکہ وہ نام بھی پوچھتے ہیں کہ بتائیے کس نے مانگا ہے، مگر اس کا جواب دینے کی بجائے گردان جاری ہے، ’این آر او نہیں دوں گا!‘

9۔ دہشت گردی کرنے والوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

یہ جملہ سراسر غلط ہے۔ دہشت گردوں کا مذہب ہوتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر ہی اس طرح کے قدم اٹھائے جاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر پر امن مذہب کا چہرہ خراب ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردوں کی شناخت بتائی جاتی اور یہ کھلم کھلا اعلان ہوتا کہ ان کا تعلق ہمارے دین سے ہے مگر ان کی تشریح اپنی ہے کیونکہ ہمارے دین میں دہشت گردی نہیں ہے اور ہم ان کے خلاف ہیں۔

10۔ حملے کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا

یہ جملہ، بلکہ یہ دعویٰ آج بھی نتائج طلب ہے۔ دسیوں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں اور یہ جملہ ادا ہونا واجب ہے، لیکن سینکڑوں واقعات ہونے کے بعد کیا جانے والا دعوی صرف دعوے کی حد تک محدود ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10