کاش ہمیں بھی کسی نے سمجھایا ہوتا

ہمیں بھی اپنے ڈراموں اور فلموں میں اس موضوع پر اسی طرح کھل کر بات کرنی چاہیے تاکہ ہماری عورتیں دفاتر میں مکمل اعتماد کے ساتھ کام کر سکیں۔

(اے ایف پی)

ہمیں ہماری پہلی نوکری ملی تو ہم خوش ہونے کی بجائے پریشان ہو گئے۔ ہم نے دفاتر میں خواتین کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کے بارے میں کافی کہانیاں سن رکھی تھیں۔

لیکن اس وقت ہمارے سر پر نوکری کرنے اور کچھ بننے کا بھوت سوار تھا۔ ہم نے اپنی پریشانی کو ایک طرف رکھتے ہوئے دفتر جانے کے لیے کمر کس لی۔ یہ ایک چھوٹے سے میگزین کا چھوٹا سا دفتر تھا۔ پورے دفتر میں کل ملا کر چھ لوگ کام کر رہے تھے۔ ایک تو خود ایڈیٹر یعنی میگزین کے مالک تھے۔ ان کے ساتھ ان کی بیوی بھی دفتر آیا کرتی تھیں۔ ان کے علاوہ ایک گرافک ڈیزائنر تھا، ایک فیچر رائٹر تھا اور ایک مارکیٹنگ کم آئی ٹی افسر تھا اور چھٹے ہم خود تھے۔

ہماری پہلی پہلی نوکری تھی۔ ہمارا پورا دھیان ’صحافت‘ سیکھنے پر تھا۔ کچھ دن بعد ہمیں احساس ہوا کہ جیسے ہی دوسرا فیچر رائٹر کمرے سے نکل کر باہر جاتا ہے، ایڈیٹر صاحب کمرے میں آ جاتے ہیں۔ ہم بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ ایک دن ایڈیٹر صاحب نے خود آنے کی بجائے ہمیں بلا لیا۔ ان دنوں دفتر میں اگلے مہینے کے میگزین کی تیاری ہو رہی تھی۔ وہ ہم سے میگزین کے لیے سٹوری آئیڈیاز پوچھنے لگے۔ ہمیں ان کی نظریں اپنے جسم میں گڑتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ پتہ نہیں وہ لمحے کس طرح گزرے۔ ہم اپنے کمرے میں واپس آئے تو کانپ رہے تھے۔ ہم نے اگلے ہی روز وہ نوکری چھوڑ دی۔

ہماری دوسری نوکری ایک ہاؤسنگ سکیم کے دفتر میں تھی۔ وہاں ہمارے علاوہ بھی بہت سی خواتین کرتی تھیں۔ دو تین ہفتوں میں وہاں کا ماحول بھی کھل کر سامنے آ گیا۔ وہاں کے مرد بے حد روایتی تھے۔ انہیں لگتا تھا وہ اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک خاتون وہاں کئی سالوں سے کام کر رہی تھیں۔ وہ اپنا بیشتر وقت سی ای او کے کمرے میں ہی گزارا کرتی تھیں۔ ایک دن ہم سب نے ان سے دفتری ماحول کی شکایت کی تو انہوں نے کہا وہاں کا ماحول باقی جگہوں سے کئی گنا بہتر ہے اور ہمیں شکایت کرنے کی بجائے اپنی برداشت پر کام کرنا چاہیے۔

ہم نے جیسے تیسے وہاں سال گزارا اور اس کے بعد ماسٹر ڈگری کرنے چین چل دیے۔ دو سال بعد وہاں سے واپس لوٹے تو ہم بھی بدل چکے تھے اور پاکستان میں بھی تبدیلی آ چکی تھی۔ تھری جی اور فور جی کی وجہ سے انٹرنیٹ قدرے عام ہو چکا تھا۔ ہم نے ایک نجی ٹی وی چینل میں نوکری شروع کر دی۔ ہم نے نوکری کے پہلے ہی دن سب کو بتا دیا کہ یہ ہم ہیں، یہ ہمارا ڈیسک ہے، اور یہاں بدتمیزی کرنا منع ہے۔ ہم جتنا عرصہ وہاں رہے، اسی طرح رہے۔ ہمارے بارے میں مشہور کر دیا گیا کہ ہم بہت سخت ہیں، کسی کا لحاظ نہیں کرتیں، کوئی تنگ کرے تو اس پر بلاگ لکھ دیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے جو سبق اپنی پہلی دو نوکریوں کے برے تجربات اور ایک ملک کے سفر سے سیکھا، وہ ہم ان تجربات سے گزرے بغیر بھی سیکھ سکتے تھے پر ہمارے ہاں ایسا ماحول ہی نہیں ہے۔ ہمیں ہمارے حقوق بتانے کی بجائے ان سے دستبردار ہونا سکھایا جاتا ہے۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ نوکری نہ کرو۔ دفاتر کا ماحول ٹھیک نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ کوئی تم سے اس طرح نہ بات کر سکتا ہے اور نہ ہی سلوک کر سکتا ہے۔ اگر کوئی ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے تو ہمیں بتانا۔ ہم اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے کیونکہ یہ تمہارا حق ہے۔

ویک اینڈ پر نیٹ فلیکس پر ایک بھارتی سیریز دیکھی۔ اس سیریز کا نام ’بامبے بیگمز‘ ہے۔ اس سیریز میں کئی موضوعات پر بات کی گئی ہے۔ ان ہی میں سے ایک موضوع  کام کی جگہ پر عورتوں کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کا بھی ہے۔ سیریز کے اختتام پر پوجا بھٹ، جو اس سیریز میں رانی کا کردار ادا کر رہی ہیں، اپنی سوتیلی بیٹی کو اپنے کریئر کے آغاز میں اپنے باس کے ہاتھوں ہونے والے جنسی استحصال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ اسے اپنی زندگی میں ایسا کوئی بھی رویہ برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ کسی بھی عورت کے ساتھ ایسا ہونا غلط ہے اور اس پر اس کا آواز اٹھانا اور انصاف کا مطالبہ کرنا بالکل درست ہے۔

پوری سیریز ایک طرف اور اس کا یہ سین ایک طرف۔ پاکستان میں آج بھی لڑکیوں کو نوکری کرنے کی اجازت محض اس لیے نہیں دی جاتی کہ ’دفتروں کا ماحول‘ خراب ہے۔ یاد رہے ان دفاتر میں وہی مرد کام کرتے ہیں جو کسی دوسرے دفتر میں ماحول خراب ہونے کی وجہ سے اپنے گھر کی عورتوں کو وہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان ہی کی طرح کوئی مرد ان کی وجہ سے اپنے گھر کی عورتوں کو ان کے دفتر میں کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہو گا۔ ہمیں بھی اپنے ڈراموں اور فلموں میں اس موضوع پر اسی طرح کھل کر بات کرنی چاہیے تاکہ ہماری عورتیں دفاتر میں مکمل اعتماد کے ساتھ کام کر سکیں ورنہ قیامت آ جائے گی پر ہمارے دفاتر کا ماحول ٹھیک نہیں ہو گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ