خواتین کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنا آسان نہیں

خواتین مردوں سے دگنا کام کرتی ہیں مگر گھر اور دفتر دونوں جگہ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں اب شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس میں خواتین کام نہ کر رہی ہوں۔ ایسی خواتین کے بارے میں لکھتے ہوئے لکھاری ’مردوں کے شانہ بشانہ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس پر مجھے اور کئی خواتین کو اس پر سخت اعتراض ہوتا ہے۔

گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین مرد کے شانہ بشانہ نہیں بلکہ اس سے زیادہ کام کرتی ہیں۔ انہیں گھر اور دفتر دونوں کا کام کرنا پڑتا ہے۔ دونوں جگہ ان کی صلاحیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ کیسا بھی کام کر لیں، لوگ کسی بھی غلطی یا غلطی نہ ہو تب بھی، انہیں طعنہ دے ہی دیتے ہیں۔

نوکری کرنے والی خواتین کی پہلی جنگ تو ان کے اپنے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ بہت سے خاندانوں میں عورت کا نوکری کرنا بے عزتی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے خاندانوں میں سے کسی عورت کا اپنے گھر والوں کو اپنی نوکری کے لیے منانا ہی بہت بڑی بات ہے۔ اس کے بعد اسے کام کی جگہ پر کسی بھی ایسے ناخوشگوار واقعے سے بچنا ہوتا ہے جس کی بنیاد بنا کر اس کے گھر والے اسے نوکری چھوڑنے پر مجبور کریں۔ دفاتر میں ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو خواتین کو بات بات پر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ انہیں جتاتے ہیں کہ تمہاری جگہ تو باورچی خانہ ہے، وہیں جا کر بیٹھو، یہ کام تمہارے بس کا نہیں۔

کچھ دن پہلے سابق کرکٹ کھلاڑی سکندر بخت نے سپورٹس صحافی اور تجزیہ نگار عالیہ رشید کے ساتھ یہی کیا۔ ایک نجی چینل کے شو میں عالیہ کو نشانہ بناتے ہوئے سکندر بخت نے کہا کہ ’جنھوں نے کبھی کرکٹ کا بلا نہ پکڑا ہو، جنھوں نے کبھی زندگی میں بیٹنگ پیڈز نہ پہنے ہوں، وہ ہمیں بتائیں گے کہ فٹ ورک کیا ہوتا ہے؟‘

سکندر بخت کا عالیہ رشید کے لیے کہا گیا جملہ پاکستانی معاشرے کی خواتین کے بارے میں عمومی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ اس معاشرے نے خواتین کو کام کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن ان کے کام کو اور انہیں عزت دینا نہیں سیکھی۔

صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس سے منسلک خواتین کو دنیا بھر میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ جو کام یہ خواتین کر رہی ہیں وہی کام ان کے مرد ساتھی کر رہے ہوں تو انہیں ہر طرف سے واہ واہ ملے لیکن چونکہ یہ خواتین ہیں تو ان کی تعریف کرنا بعض مرد اپنی توہین سمجھتے ہیں۔

خواتین صحافیوں کو عام طور پر ’مشکل بیٹس‘ جیسے کہ جرم، عدالت یا سیاست نہیں دی جاتیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ آپ خاتون ہیں تو ’آسان بیٹ‘ جیسے کہ موسم، تعلیم، اور شوبز کور کر لیں۔ یہاں دو پہلو ہیں۔ اول، کوئی بھی بیٹ غیر اہم نہیں ہوتی۔ عوام سے جڑا ہر مسئلہ ہی اہم ہوتا ہے۔ دوم، یہی بیٹ کوئی آدمی کور کر رہا ہو تو اس کا کام بالکل ویسے ہی اہم سمجھا جاتا ہے جیسے سیاست کی بیٹ کور کرنے والے صحافی کا۔ یہ ہماری منافقت نہیں تو اور کیا ہے۔

خواتین صحافیوں کو بہت سی جگہ ایسے ہی معتصبانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرد صحافی کسی مشہور شخصیت کے ساتھ اپنی تصویر بڑے فخر کے ساتھ اپنے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں، یہی کام کوئی خاتون صحافی کر لے تو میڈیا سے ہی دو چار لوگ اس کی غیر موجودگی میں کوئی نہ کوئی بات کر دیتے ہیں۔

مرد صحافی رات گئے تک پریس کلب میں بیٹھے رہتے ہیں، مختلف لوگوں سے ملتے ہیں، کافی پیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، یہی کام کوئی عورت کر لے تو بری کہلائے۔

ان سب رویوں کا سامنا کرتے ہوئے عالیہ رشید جیسی خواتین صحافت میں اپنا نام بناتی ہیں تو یہ انہی کی ہمت ہے۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی ان کے کام پر اعتراض اٹھا ہی دیتا ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ عالیہ رشید نے اس بات کو بس جانے نہیں دیا بلکہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ ہم سب خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر ایسے ہی بولنا چاہیے۔

خواتین کی جدوجہد صرف دیگر خواتین ہی سمجھ سکتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ عورت کا اپنے گھر سے نکلنا کتنا مشکل ہے۔ ایک تو گھر سے نوکری کی اجازت لینا اور پھر اس شعبے میں کام کرنا جو ویسے ہی دنیا بھر میں خواتین کے لیے غیر مناسب تصور کیا جاتا ہے، اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے۔ ایسی جگہ کسی خاتون کا ٹکنا اور اپنا نام بنانا کوئی آسان بات نہیں۔ مردوں کے لیے شائد یہ ایک پیس آف کیک ہو لیکن عورتوں کے لیے یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔

ہم خواتین کی عزت کرنے کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن اصل میں ان کی کیا اپنی بھی عزت نہیں کرتے۔ اگر ہم اپنی عزت کرتے ہوتے تو کسی بھی خاتون کے بارے میں ایسی بات کرنے سے پہلے دس بار سوچتے بالکل ویسے ہی جیسے کسی مرد سے بات کرتے ہوئے سوچتے ہیں۔ خواتین اور مردوں کے ساتھ ہمارا مختلف برتاؤ بتاتا ہے کہ ہمیں مسئلہ خواتین کے کام سے نہیں بلکہ ان کی صنف سے ہے۔

ہم اپنے مقابلے پر ان کا ہونا برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ برداشت سیکھنی ہوگی۔ ہمیں اپنی انا کم کرنی ہوگی اور سب سے بڑھ کر ہمیں خود کو ایک ایکسپرٹ کی بجائے طالب علم سمجھنا ہوگا جس کا مقصد سیکھنا ہے، اب چاہے سکھانے والا مرد ہو یا عورت، کیا فرق پڑتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ