پشاور: عدالت کا عورت مارچ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم

پشاور کے ایک وکیل نے درخواست دی ہے کہ عورت مارچ میں توہینِ مذہب ہوئی ہے جب کہ عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ پشاور میں عورت مارچ تو ہوا ہی نہیں۔

رواں سال اسلام آباد میں منعقد ہونے والے عورت مارچ کے مناظر (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ایک ایڈیشنل سیشنز جج نے پشاور پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ مبینہ توہینِ مذہب کے الزام میں عورت مارچ منتظمین اور شرکا کے خلاف ایف آئی آر درج کرے، تاہم عورت فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ پشاور میں عورت مارچ ہوا ہی نہیں۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے وکیل ابرار حسین نے ایک ذیلی عدالت میں درخواست جمع کی تھی  کہ آٹھ مارچ 2021 کو خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے پاکستان کے مختلف شہروں میں’عورت مارچ‘ کے نام سے نکالی جانے والی ریلیوں کے دوران منتظمین کی ہدایت اور سرپرستی میں ’فحاشی اور غیر اسلامی پوسٹروں کے علاوہ توہینِ مذہب کی گئی ہے جس سے سائلان سمیت مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے جو ایک قابل سزا جرم ہے۔‘

تاہم دوسری جانب عورت فاؤنڈیشن کی رکن صائمہ منیر نے درخواست گزار ابرار حسین کے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ بیان سراسر دروغ گوئی پر مبنی ہے، کیونکہ پشاور میں یوم خواتین پر عورت مارچ ہوا ہی نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا، ’اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ کچہری کے احاطے میں مارچ ہوا تو ان کو بطور ثبوت تصاویر لینی چاہیے تھیں۔ کچہری میں کس نے عورت مارچ کیا، ہمیں بھی پتہ چلے کہ کون تھے وہ؟‘

واضح رہے کہ دو ہفتے قبل تحریکِ طالبان پاکستان نے بھی عورت مارچ کے منتظمین کو دھمکی دی تھی اور الزام عائد کیا تھا کہ وہ فحاشی پھیلا رہی ہے۔ 

وکیل ابرار حسین نے اپنے ساتھی اسرار حسین، کاشف احمد ترکئی، صیاد حسین اور عدنان گوہر کے ساتھ مل کر پشاور کے تھانہ شرقی کینٹ میں مذکورہ مسئلے پر ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست کی تھی تاہم متعلقہ تھانے نے یہ ایف آئی آر درج کرنے سے معذرت کر لی تھی۔ اس کے بعد سائلین نے دفعہ 22-اے کوڈ آف کریمینل پروسیجر کے تحت عدالت میں درخواست جمع کروائی اور عدالت کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی گزارش کی۔

پاکستان کے کوڈ آف کریمینل پروسیجر دفعہ ب22-اے کے مطابق اگر پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالت امن برقرار رکھنے کی خاطر قانونی کارروائی کے لیے پولیس کو حکم جاری کر سکتی ہے۔

پشاور ہائی کورٹ کے وکیل شبیر حسین گگیانی سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی رائے مانگی تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے قانون بہت واضح ہے، اور وہ یہ کہ جرم جس تھانے کے حدود میں ہوا ہو ایف آئی آر بھی وہیں درج ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بصورت دیگر پولیس کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے کیس کی پیروی نہ کریں۔

لیکن سائلین کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے مبینہ غیر اسلامی اور توہین آمیز مواد ضلع پشاور کے احاطہ کچہری میں دیکھا ہے اور اسی بنا پر انہوں نے تھانہ شرقی میں اس حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کی، تاہم انکار کی صورت میں انہیں عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔

’جعلی پوسٹر تو کوئی بھی شیئر کر سکتا ہے‘

عورت فاؤنڈیشن کی صائمہ منیر نے کہا کہ اگر پشاور میں عورت مارچ نہیں ہوا تو وہ اسلام آباد یا دوسرے شہر کے منتظمین اور شرکا پر ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے ان کے خلاف کریں جو پشاور میں عورت مارچ کا نام استعمال کر تے ہوئے درخواست گزاروں نے دیکھے ہیں۔

حقوق نسواں کے حوالے سے سرگرم سوشل ایکٹویسٹ خورشید بانو نے کہا کہ خبروں میں آنے کے لیے اور خواتین کے جائز حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

‘اس خبر کو سن کر ہم خواتین حیران ہیں اور ہمیں ہنسی آ رہی ہے کیونکہ پچھلے دو سال سے پشاور میں بدقسمتی سے ’خواتین مارچ‘ ہوا ہی نہیں۔ ان کو اپنا بیان ثبوتوں کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ اس طرح تو کوئی بھی جعلی پوسٹر شیئر کر سکتا ہے۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایڈیشنل سیشنز جج سید شوکت اللہ شاہ نے جمعے کو اس کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’جرم واقعتاً سرزد ہوا ہے اور مقامی پولیس کی یہ قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سائلین کی درخواست پر اس واقعے کی ایف آئی آر درج کریں۔‘

عدالت نے تھانہ شرقی کے ایس ایچ او کو حکم دیا کہ متعلقہ قانون کی روشنی میں اس واقعے کی ایف آئی آر درج کی جائے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر پاکستان میں ہونے والا ’عورت مارچ‘ پچھلے کئی سالوں سے متنازع پوسٹروں اور نعروں کی وجہ سے تنازعے کا شکار ہے، جس کے بعد عورت مارچ کی کئی خواتین شرکا نے موقف اختیار کیا کہ مارچ کے حوالے سے غلط پروپیگنڈا ہو رہا ہے اور بعض عناصر اس کی اصل روح کو قصداً نقصان پہنچاتے ہوئے جعلی ویڈیوز اور پوسٹر سوشل میڈیا پر پھیلا رہے ہیں۔

اس حوالے سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے درخواست گزار وکیل ابرار حسین سے پوچھا کہ کہیں انہیں کسی جعلی پوسٹر یا نعرے کا حقیقی ہونے کا گمان تو نہیں ہوا، تو انہوں نے کہا:’مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، اپنی درخواست میں میں نے جن متعلقہ الفاظ کا ذکر کیا ہے وہ بالکل اصلی ہیں، اور ان کے خلاف اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے دو راستے تھے، جن میں سے میں صحیح اور قانونی راستے کو چنا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین