'تنخواہیں ادا نہیں کر سکتے': پاکستان کا 'بلند ترین' سکی ریزورٹ بند

سکی ریزورٹ کو پاکستان کا بلند ترین ریزورٹ سمجھا جاتا ہے اور سہولیات جیسا کہ چئیر لفٹس، زپ لائن  وغیرہ کے لحاظ سے بھی پاکستان کا  واحد سکیئنگ ریزورٹ ہے۔

(محکمہ سیاحت، خیبر پختونخواہ)

خیبر پختونخوا کے  سیاحتی مقام مالم جبہ میں آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع  پاکستان کا بلند ترین سکی ریزورٹ کو انتظامیہ نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے ان پر انٹری فیس وصول نہ کرنے کی وجہ سے بند کردیا۔

ریزورٹ چلانے والی کمپنی  سیمسن گروپ  نے  انڈپینڈنٹ اردو کو جاری اپنے بیان میں بتایا ،' پشاور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے مطابق جس میں ہمیں انٹری فیس لینے سے منع کیا ہے،  ریزورٹ کو ہم نہیں چلا سکتے ہیں کیونکہ  انٹری فیس کے بغیر  ریزورٹ  کی سرگرمیاں چلانا اور ملازمت میں رکھے 500سے زائد افراد کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن نہیں۔'

سکی ریزورٹ کو پاکستان کا سب سے بلند ترین ریزورٹ سمجھا جاتا ہے اور سہولیات جیسا کہ چئیر لفٹس، زپ لائن  وغیرہ کے لحاظ سے بھی پاکستان کا  واحد سکیئنگ ریزورٹ ہے۔

 سوات میں امن وامان کی خرابی کے بعد 2008 میں  طالبان نے  وہاں پر موجود چئیر لفٹس اور دیگر سامان کو جلا دیا تھا اور72کمروں پر مشتمل سرکاری ہوٹل کو بموں سے اڑا دیا تھا۔

سوات میں 2009 میں ملٹری آپریشن کے بعد جب حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے تو خیبر پختونخوا حکومت نے 2011 میں مالم جبہ سکی ریزورٹ کو دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور 2014 میں اس ریزورٹ کو عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔

بعد ازاں اس ریزورٹ کو خیبر پختونخوا حکومت نے سیمسن گروپ کے نام سےایک نجی کمپنی کو  33 سال کی لیز پر دے دیا اور اس کمپنی نے وہاں پر سرمایہ کاری کی۔

کمپنی  کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سیمسن گروپ نے اس ریزورٹ میں تین سو کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے  جہاں پر اب تک مختلف بین الاقوامی اور قومی سکی مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔ اسی ریزورٹ کے قریب سیمسن کمپنی نے 2019 ایک  فائیو سٹار ہوٹل بھی کھول دیا ہے۔

مالم جبہ سکی ریزورٹ میں بنایا گیا سکینگ فیلڈ 12سو میٹرز لمبا اور 400 میٹر چوڑا ہے۔

کمپنی کے مطابق لیز پر لیے گئے اس ریزورٹ کی سالانہ لاگت دو کروڑ روپے ہے اور حکومت کے ساتھ کیے گئے لیز کے شق نمبر 18 کے مطابق  کمپنی کو خاص طور پر یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ انٹری فیس وصول کرے گی۔ یاد رہے کہ مالم جبہ سکی ریزورٹ میں جانے کے لیے پر ایک سیاح سے 300 روپے بطور انٹری فیس وصول کی جاتی ہے۔

اسی طرح تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر پر محیط  چیئر لفٹ استعمال کرنے کی فیس فی سیاح 800 روپے جب کہ تقریباً 1000 فٹ بلندی پر بچھائے گئے  زپ لائن کی فی سیاح 2500 روپے فیس لی جاتی ہے۔ زپ لائن کی لمبائی تقریباً2000 فٹ ہے۔ سکینگ کے شوقین افراد سے فی سیاح دو ہزار روپے لیے جاتے ہے۔

کمپنی نے بتایا ،' انٹری فیس کو عدالت کی جانب سے غیر قانونی قرار دینے کے بعد جب تک کمپنی اس کاروبار کو چلانے کا متبادل حل یا عدالت سے دوبارہ انٹری فیس لینے کی اجازت نہیں ملتی ، ریزورٹ  سیاحوں کے لیے بند رہے گا۔'

عدالت میں کیا کیس چل رہا ہے؟

ملم جبہ سکی ریزورٹ میں انٹری فیس پرعوام کی جانب سے شروع دن سے تنقید کی زد میں تھا۔ اسی انٹری فیس کے خلاف سوات کے سئنیر وکیل اختر منیر نے عدالت میں رٹ پیٹیشن دائر کی تھی کہ اس انٹری فیس کو ختم کیا جائے۔

اسی کیس کی سماعت کرتے ہوئے یکم اپریل کو عدالت نے انٹرم آرڈر جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ کیس کی اگلی سماعت جو 21 اپریل کو مقرر ہے تک انٹری فیس نہیں لی جائے گی۔

عدالت نے مختصر فیصلے میں لکھا کہ ریزورٹ انتظامیہ نے عدالت کو اس بات پر مطمئن نہیں کیا کہ کس قانون کے تحت انھوں نے ایک مقامی روڈ پر بیرئیر لگایا ہے اور عوام سے ریزورٹ کی طرف جانےکے لیے انٹری فیس وصول کی جاتی ہے۔

 سکی ریزورٹ کی زمین  اور نیب کیس

مالم جبہ سکی ریزورٹ ایک طرف اگر پاکستان کے واحد بلند ترین سکینگ مقابلوں کے لیے مشہور ہے تو اس کی ایک وجہ شہرت اس مقام کے لیے لی گئی زمین کی لیز میں مبینہ کرپشن ہے جس کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا ہے۔ 

سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک ، موجودہ وزیر اعلیٰ محمود خان ، سابق وزیر کھیل عاطف خان اور سینیٹر محسن عزیز  کے علاوہ مختلف بیوروکریٹ اس  کیس میں نیب عدالت میں بھی پیش ہوئے ہیں۔

اس مقدمے میں یہ کہا گیا ہے کہ اس ریزورٹ کے لیے دی گئی 275 کنال کی زمین سابق وزیر سیاحت عاطف خان کے رشتہ دار کی کمپنی کو لیز پر دی گئی تھی جس سے قومی خزانے کو مبینہ طور پر نقصان پہنچا ہے۔ اسی کیس پر مختلف اوقات میں اپوزیشن جماعتیں پر بات کر چکے ہیں کہ اس کیس کو نیب کی جانب سے جلد نمٹانا چاہیے۔

نیب کی جانب سے  اس کیس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مالم جبہ ریزورٹ کو محکمہ جنگلات کی زمین پر بنایا گیا جو خیبر پختونخوا فاریسٹ آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے  جب کہ محکمہ جنگلات کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اس ریزورٹ کے لیے مختص زمین کے علاوہ محکمہ جنگلات کی زمین اس کو دی گئی ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔

خیبر پختونخوا محکمہ سیاحت  کے ترجمان سعد بن اویس نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس مسئلے پر موقف دیتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اس لیے محکمہ سیاحت اس پر کچھ کمنٹس نہیں کرنا چاہتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان