کیا پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات پر کنفیوژن کا شکار ہے؟

نریندر مودی کا وزیراعظم کو رسمی خط، افواج میں سیزفائر معاہدے کے نفاذ پر اتفاق، پاکستانی واٹر کمشنر کا دورہ دہلی اور پاکستانی آرمی چیف کی جانب سے دو دفعہ امن کے حوالے سے بیانات، ان واقعات سے تاثر ملا کہ پاکستان بھارت کے حوالے سے پالیسی بدلنے کو تیار ہے۔

(اے ایف پی)

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ دنوں میں حالات میں بہتری ہوتی دکھائی دی جس کے بعد ایسا سمجھا جا رہا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔

5 اگست 2019 کو جب بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تھا تو اس کے بعد سے پاکستانی کی ریاستی پالیسی رہی ہے کہ جب بھارت اس فیصلے کو واپس نہیں لے گا تب تک بھارت سے بات چیت نہیں ہو گی۔ مگر حالیہ پیش رفت اور بیانات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ پاکستان کی اس پالیسی میں نرمی آئی ہے اور پاکستان آرٹیکل 370 کی شرط کے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے تیار ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا وزیراعظم کو رسمی خط اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان کا رسمی جواب، دونوں افواج کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے درمیان رابطہ اور سیزفائر معاہدے کے نفاذ پر اتفاق، پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کا دورہ نئی دہلی اور پاکستانی آرمی چیف کی جانب سے دو دفعہ امن کے حوالے سے بیانات، یہ وہ تمام واقعات ہیں جن سے یہ تاثر گیا کہ پاکستان بھارت کے حوالے سے پالیسی بدلنے کے لیے تیار ہے۔

اس کے علاوہ کھیلوں کے روابط میں بہتری کی صورت حال بھی نظر آتی ہے۔ مارچ کے مہینے میں پاکستان کی نیزہ بازی ٹیم نے ورلڈ کپ کوالیفائرز کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ کرکٹ سیریز کے لیے بھی دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز کے حوالے سے متعدد خبریں آ چکی ہیں کہ رواں سال ہی دونوں ممالک کے درمیان سیریز ہو سکتی ہے۔ ہاکی کے حوالے سے بھی کہا جا رہا ہے کہ مئی میں دونوں فیڈریشنز کے صدور کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔

2 فروری کو آرمی چیف نے رسالپور میں پی اے ایف کی گریجویشن تقریب میں کہا تھا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ تمام اطراف امن کا ہاتھ بڑھایا جائے۔‘

18 مارچ کو اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں تقریر میں پاکستان بھارت تعلقات پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں لگتا ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھا جائے۔‘ اسی تقریر میں آرمی چیف نے امن عمل یا مذاکرات کے لیے کشمیر میں ’سازگار ماحول‘ کو بھی ضروری قرار دیا تھا۔

ان تمام واقعات سے یہی عمومی تاثر ملا کہ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے مگر حالیہ کپاس اور چینی کی درآمد پر تنازعے سے پاکستان کی بھارت پالیسی پر غیر یقینی سامنے آئی۔

نئے وزیر خزانہ حماد اظہر نے رواں ہفتے بھارت سے چینی اور کپاس کی درآمد کی خبر سنائی تھی۔ جس کے بعد حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے کہ کیسے حکومت اپنی ہی پالیسی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارت کے ساتھ تجارت کا آغاز کر رہی ہے۔ تمام تر تنقید کے بعد اگلے ہی دن وفاقی کابینہ نے اسی فیصلے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ بھارت جب تک بھارتی آئین کی شق 370 کو بحال نہیں کرے گا تب تک بھارت کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہوں گے۔

بھارت کے ساتھ تجارت کی اجازت میں جہاں وزیراعظم نے کابینہ میں اس فیصلے کی مخالفت کی وہیں بطور وزیر تجارت انہوں نے اقتصادی رابطہ کونسل سے اجازت کے لیے سمری کی منظوری بھی خود ہی دی تھی۔ جس سے حکومت کی بھارت سے متعلق پالیسی پر کنفیوژن واضح ہوتی ہے۔

تجارتی تعلقات کی بحالی اور پھر فیصلہ واپس لیے جانے پر صحافی و تجزیہ نگار طلعت حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قومی سلامتی کے امور پر فیصلہ سازی کتنی افراتفری کا شکار ہے۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی کا فیصلہ آرمی سے پوچھے بغیر لیا گیا ہو مگر اس کے بعد اس فیصلے کو واپس لینا اور وزرا اور مشیروں کی جانب سے احمقانہ دلائل اس کشتی کی عکاس ہیں جس کا کوئی کپتان نہ ہو۔‘

دفاعی تجزیہ کار اور پاکستان فوج کے سابق جنرل امجد شعیب کا اسی حوالے سے کہنا تھا کہ ’وزیراعظم کی بھی اس میں کوتاہی تھی۔ باوجود اس کے کہ وزارت تجارت نے ہی اس کی سفارش کی ہو گی، وزیراعظم کو چاہیے تھا کہ انہیں کہتے کہ اس طرح نہیں، اس کو کابینہ کے پاس بھیجیں یا پہلے وزارت خارجہ کے پاس بھیجیں اور وہ اس پر اپنے تاثرات دیں۔ وزیراعظم نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور پھر کنفیوژن پیدا ہوئی۔ میرے خیال میں وزیراعظم کی بھی اس میں کوتاہی موجود ہے۔‘

جنرل (ر) اجمد شعیب کے مطابق ’حکومت سے غلطی ہوئی کیونکہ ان تمام چیزوں کا سیاسی ردعمل آتا ہے۔ جب بالاکوٹ والا قصہ ہوا تو تجارت پر پابندی لگائی اور ابھی پالیسی کو بدلنا مناسب نہیں تھا۔‘

پاکستان کی بھارت سے متعلق پالیسی پر کنفیوژن کا ایک عنصر یہ بھی ہے کہ دوشنبہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس چیز کا عندیہ دے چکے تھے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے تیار ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو نویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھارتی ہم منصب سے ملاقات نہ ہونے کے بعد کہا تھا کہ ’اگر وہ (بھارتی وزیر خارجہ) ملاقات کی خواہش کرتے تو میں سوچتا۔‘

جنرل (ر) امجد شعیب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’یہ چیز ہمیں واضح تھی کہ بھارت کے اپنے موقف میں تھوڑی سی نرمی آئی ہے۔‘

اس سوال پر کہ کیا حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے تو جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی کشمیر کے حوالے سے پالیسی ہمیشہ سے واضح رہی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آرمی چیف کا اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں بیان کا پالیسی سے واسطہ نہیں تھا، وہ پالیسی سے ہٹ کے تھا، اس میں تجاویز کی بات تھی کہ آگے کیا ہونا چاہیے۔‘

جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق آرمی چیف نے جب یہ کہا کہ ہمیں ماضی کو دفنا دینا چاہیے تو وہ دہشت گردی کے حوالے سے تھا۔ ’یعنی اگر آپ (بھارت) نے بات شروع کرنی ہے تو بھارت اگر پھر دوبارہ وہی قصہ کھڑا کرے کہ جناب دہشت گردی پہلے بند ہو تو پھر ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ڈوزیئر دیا ہے اور بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کے شواہد دیے ہیں۔۔۔۔ تو پھر ایسی صورت حال میں بات ہو ہی نہیں سکتی۔‘

’اسی وجہ سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ اس چیز سے آپ ہٹیں تو پھر آگے بات کریں گے۔ 5 اگست 2019 کے بھارت کے قدم پر کوئی سمجھوتا نہیں تھا۔‘

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ملاقات کے حوالے سے بیان پر جنرل (ر) امجد شعیب کا کہنا تھا: ’ہارٹ آف ایشیا کے سائڈ لائنز پر کسی سے بھی ملاقات ہو سکتی ہے۔ وہاں پر اگر بات چیت ہوتی تو پاکستان نے بھارت کو یہی کہنا تھا کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ ہمارے ساتھ حل کریں اور پھر ہم باقی تعلقات پر بات کریں گے۔‘

بھارت میں اس پیش رفت کو کیسے دیکھا جا رہا ہے؟

یہ جاننے کے لیے کہ بھارت میں اس تمام صورت حال کو کیسے لیا جا رہا ہے، انڈپینڈنٹ اردو نے بھارت کے سابق چیف آف انٹیگریٹڈ ڈیفنس سٹاف اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بطور جی او سی تعینات رہنے والے لیفٹننٹ جنرل (ر) ستیش دوعا سے رابطہ کیا۔

جنرل (ر) ستیش دوعا کے مطابق گزشتہ دو مہینوں میں ہونے والے واقعات ’خوش آئند‘ تھے۔ ’سیزفائر پر دوبارہ سے آمادگی، پاکستانی آرمی چیف کے دو بیانات، وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی کے بیانات ایک اچھا ماحول پیدا کر رہے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بھارت میں لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ یہ اچھا ہے ان بیانات میں شق 370 کی شرط کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ اسی طرح جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا اور جوابی خط بھی آیا تو اس میں بھارت نے یہ نہیں کہا کہ دہشت گردی ختم ہوئے بغیر بات چیت نہیں ہو گئی اور وزیراعظم عمران نے وزیراعظم نریندر مودی کے لیے ’ایکسیلینسی‘ کا لفظ استعمال کیا اور 370 کی شرط نہیں رکھی۔‘

’دونوں ممالک کے درمیان اچھے الفاظ کا تبادلہ ہو رہا تھا۔  مگر ابھی حالیہ بیان جس میں ایک بار پھر 370 کا ذکر کیا گیا، اس سے ملے جلے سگنلز ملے۔‘

ستیش دوعا سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت پاکستان سے بات چیت کے لیے تیار ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر کا معاہدہ پرانا ہے مگر اس کے دوبارہ نفاذ پر اتفاق نہایت اہم ہے۔ معاہدہ پرانا ہے مگر اس سے جڑا جذبہ نیا ہے۔۔۔۔ دونوں ڈی جی ملٹری آپریشنز کے معاہدے کے بعد مشترکہ اعلامیہ آنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ پہلے کبھی دونوں افواج کی طرف سے مشترکہ اعلامیہ نہیں جاری ہوا اور اس اعلامیہ کے پیچھے لگتا ہے کہ بھارت کی حکومت کی منشا شامل تھی۔ بھارت میں مشترکہ اعلامیہ فوج کے اختیار سے باہر ہے۔ پاکستان میں چاہے فوج کی طاقور پوزیشن ہو مگر بھارت میں ایسا نہیں۔‘

ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے پاکستان پر ماضی کے برعکس کوئی تنقید نہیں کی تھی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ’بھارت کے رویے میں مثبت تبدیلی محسوس کی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان