اردن میں ’نظر بند‘ ہونے والے شہزادہ حمزہ کون ہیں؟

اردن میں حکام نے شاہ عبداللہ کے سابق مشیر، شاہی خاندان کے رکن اور دیگر کو ’کڑی نگرانی کے بعد سکیورٹی بنیادوں‘ پر گرفتار کر لیا۔ سعودی عرب، امریکہ، مصر اور لبنان کا شاہ عبداللہ کی حمایت کا اعلان۔

شاہ حسین مرحوم اور ان کی پسندیدہ بیوی ملکہ نور کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ حمزہ بن الحسین (روئٹرز)

اردن میں ہفتے کو اچانک بڑی سیاسی گرفتاریوں کے بعد خطے کے اہم ممالک سعودی عرب، مصر اور لبنان کے علاوہ امریکہ نے اردن کے شاہ عبداللہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اردن کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہفتے کو شاہ عبداللہ کے سابق مشیر، شاہی خاندان کے رکن اور دیگر کو ’سکیورٹی‘ بنیادوں پر گرفتار کر لیا۔

شہزادہ حمزہ بن الحسین حراست میں لیے جانے والے افراد میں شامل نہیں، جن کے بارے میں اس سے قبل واشنگٹن پوسٹ سمیت کچھ اشاعتی اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ بھی گرفتار ہیں۔

خبر رساں ادارے بترا نے بھی ان خبروں کی تردید کی ہے کہ سابق ولی عہد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

تاہم شہزادہ حمزہ کے وکیل کی جانب سے بی بی سی کو بھیجی گئی ایک ویڈیو میں سابق ولی عہد کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ وہ نظربند ہیں۔

بترا کے مطابق گرفتار کی جانے والی شخصیات میں امریکہ کے پڑھے اور شاہ عبداللہ کے ’راز دار اور بااعتماد‘ باسم عوض اللہ، جو وزیر خزانہ بھی بنے اور شاہی خاندان کے رکن شریف حسن بن زید شامل ہیں۔

ان کے علاوہ کئی دیگر شخصیات کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جن کی شناخت تاحال ظاہر نہیں کی گئی۔ بترا نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ یہ گرفتاریاں کڑی نگرانی کے بعد سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمل میں لائی گئیں اور اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔

خیال رہے کہ اردن میں اعلیٰ حکام اور شاہی خاندان کے ارکان کی اس طرح سے گرفتاری ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔

شہزادہ حمزہ نے ویڈیو پیغام میں کیا کہا؟

بی بی سی کو بھیجی گئی ویڈیو میں سابق ولی عہد کہتے ہیں: ’آج (ہفتے کی) صبح میری اردن کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے (محل سے) باہر جانے، لوگوں سے بات چیت کرنے یا ان سے ملاقات کرنے کی اجازت نہیں کیوں کہ ان کے بقول جن ملاقاتوں میں میں شامل تھا یا سوشل میڈیا پر میرے دوروں کے حوالے سے حکومت یا بادشاہ پر تنقید ہوتی رہی ہے۔‘

شہزادہ حمزہ کا کہنا ہے کہ ان پر براہ راست حکومت یا بادشاہ کو تنقید کا نشانہ بنانے کا الزام نہیں۔

تاہم انہوں نے کہا: ’میں گورننس میں خرابی، بدعنوانی اور اس نااہلی کے لیے ذمہ دار نہیں ہوں جو پچھلے 15 سے 20 سالوں سے ہمارے حکومتی ڈھانچے میں موجود ہے اور مزید بدتر ہوتی جارہی ہے۔ اور میں اداروں پر عوام کے اعتماد نہ کرنے کے لیے بھی ذمہ دار نہیں ہوں۔

’بات اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں کوئی بھی دھونس، گرفتاری، ہراساں اور دھمکی کا سامنا کیے بغیر کسی بھی چیز پر بات کرنے یا اظہار رائے کرنے کے قابل نہیں۔‘

اہم ممالک کا شاہ عبداللہ کی حمایت کا اعلان

سعودی پریس ایجنسی نے سعودی رائل کورٹ کا ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق: ’سعودی مملکت اردن کی سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے شاہ عبداللہ اور ولی عہد شہزادہ الحسین بن عبداللہ دوم کی جانب سے اٹھائے گئے تمام فیصلوں اور اقدامات کی مکمل حمایت کرتی ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اردن کے شاہ کی حمایت میں جاری ایک بیان میں کہا کہ شاہ عبداللہ امریکہ کے ’کلیدی شراکت دار‘ ہیں اور ان اطلاعات کے باوجود کہ ان کے سوتیلے بھائی شہزادہ حمزہ سے ممکنہ طور پر ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے مبینہ منصوبے کے سلسلے میں پوچھ گچھ کی گئی ہے، امریکہ کی شاہ عبداللہ کو مکمل حمایت حاصل ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم ان اطلاعات کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور اردن کے عہدے داروں سے رابطے میں ہیں۔‘

ادھر مصر نے بھی شاہ عبداللہ کی ملک کو سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھنے کی کوششوں کی حمایت کی ہے۔

لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری نے بھی اردن کے رہنما کے ساتھ ملک کی سلامتی کے تحفظ کے لیے اظہار یکجہتی کیا۔

شہزادہ حمزہ کون ہیں؟

شاہ حسین مرحوم اور ان کی پسندیدہ بیوی ملکہ نور کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ حمزہ بن الحسین برطانیہ کے ہارو سکول اور رائل ملٹری اکیڈمی سینڈورسٹ سے گریجویٹ ہیں۔

بعد میں انہوں نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ اردن کی مسلح افواج میں بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہیں 1999 میں اردن کا ولی عہد شہزادہ نامزد کیا گیا تھا کیوں کہ وہ اس عہدے کے لیے شاہ حسین کے پسندیدہ امیدوار تھے۔

شاہ حسین اکثر عوامی سطح پر شہزدہ حمزہ کو ’اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک‘ قرار دیتے تھے۔

تاہم شاہ حسین کی وفات کے وقت ان کو جانشین بننے کے لیے بہت کم عمر اور ناتجربہ کار کے طور پر دیکھا گیا اور اس طرح ان کی بجائے شاہ عبداللہ تخت پر فائز ہوئے۔ انہوں نے حمزہ کو 2004 میں ولی عہد کے منصب سے دستبردار کردیا۔

یہ ملکہ نور کے لیے بڑا دھچکا تھا جن کو اپنے بڑے بیٹے کے بادشاہ بننے کی امید کی تھی۔

29 مارچ، 1980 کو پیدا ہونے والے شہزادہ حمزہ بن الحسین ہیلی کاپٹر اڑانے، شوٹنگ، پیراشوٹنگ، سکائی ڈائیونگ، موٹرسائیکلنگ اور واٹر سپورٹس کے شوقین ہیں۔

شہزادہ حمزہ نے دو شادیاں کی ہیں۔ انہوں نے پہلی شادی شہزادی نور سے 2003 میں کی تھی لیکن یہ شادی 2009 میں ختم ہو گئی۔ شہزادہ حمزہ کی پہلی شادی سے ایک بیٹی ہے۔

انہوں نے 2013 میں دوسری شادی کی، جس سے ان کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

 گرفتار کی جانے والی شخصیات میں شامل باسم عوض اللہ امریکہ سے تعلیم یافتہ اور شاہ عبداللہ کے ’راز دار اور بااعتماد‘ ساتھی تھے جو بعد میں وزیر خزانہ بھی بنے۔ گرفتار کی گئی دوسری اہم شخصیت حسن بن زید  شاہی خاندان کے رکن ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا