ڈپریشن سے نجات کے لیے پشاور کی خواتین کو جِم کا سہارا

خواتین کی طرف سے بڑھتی ہوئی مانگ اور شہر کے حالات دیکھ کر کاروباری شخصیات نے مختلف علاقوں میں جم کھول دیے ہیں، اس کے علاوہ مختلف کورسز کروانے والی اکیڈمیاں بھی فعال ہوگئی ہیں۔

یونیورسٹی ٹاؤن میں موجود ایک نجی جمنازیم میں ایک خاتون ورزش میں مصروف ہیں۔ تصویر: انڈپینڈنٹ اردو

پشاور ایک ایسا شہر ہے جس نے عروج و زوال کے مختلف دور دیکھے ہیں اور ہر دور کے ساتھ اس شہر کے باسیوں کی زندگی اور کاروبار بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے۔

2001 سے پہلے کا پشاور دیکھیں تو اُس دور میں ہمیں ہر طرف رونق نظر آتی ہے۔ افغانستان سے آئے فارسی بولنے والے مہاجرین نے جدید لباس اور طرزِ زندگی کے لیے طرح طرح کے کاروبار کھول رکھے تھے، جس میں ورزش گاہیں یعنی جِم اور سوئمنگ پول خاص اہمیت رکھتے تھے۔ مقامی کاروباری شخصیات نے بھی فائدہ دیکھ کر اس طرح کے کاروباروں پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔

لیکن 2001 کے بعد کا پشاور زوال کی نظر ہوتا دکھائی دیتا ہے، جس کی بنیادی وجوہات دہشت گردی و انتہا پسندی تھیں۔ خواتین کا گھروں سے نکلنا دو بھر ہو گیا اور سماجی تبدیلیوں نے پشاور میں موجود ورزش گاہوں، سوئمنگ پول اور دیگر کاروباروں کو ٹھپ کرکے رکھ دیا۔

تقریباً ایک عشرے سے زائد عرصے کے بعد پشاور ایک مرتبہ پھر سانس لینے لگا ہے۔ خواتین فارغ اوقات میں مشغلے کے طور پر کھیلنا چاہتی ہیں۔ وہ تیراکی سیکھنا اور کرنا چاہتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وہ اکثر  فیس بک پر خواتین کے لیے مخصوص گروپس میں کرتی رہتی ہیں۔ پشاور کی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ وہ جِم یعنی ورزش گاہوں کی سہولت چاہتی ہیں اور اگر یہ سہولت انہیں حکومت کی طرف سے فراہم ہو تو ان کے لیے زیادہ آسانی ہو جائے گی۔

خواتین کی طرف سے بڑھتی ہوئی مانگ اور شہر کے حالات دیکھ کر کاروباری شخصیات نے مختلف علاقوں میں جم کھول دیے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی پرانی اکیڈمیاں، جو مختلف قسم کے کورسز کراتی تھیں، بھی دوبارہ سے فعال ہو گئی ہیں۔

یونیورسٹی ٹاؤن میں موجود ایک نجی جمنازیم کی ٹرینر فرزانہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک عام مسئلہ ہے جو صحت مند طرز زندگی اپنانے سے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ چونکہ پشاور میں جم کی سہولت ناپید تھی اور ہر جگہ خواتین کے لیے باہر واک کرنے کی سہولت بھی میسر نہیں ہوتی لہذا ان کے ذہنی  و جسمانی مسائل بڑھتے جا رہے تھے۔ فرزانہ کے مطابق ان کے جم کے مالک محمد بلال نے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ جم کھول رکھا ہے۔

فرزانہ کا کہنا ہے کہ ان کے جم سے کئی خواتین صحت یاب ہو کر گئی ہیں، ان کی بیماریوں میں کمی آگئی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں خواتین کو آپس میں گھلنے ملنے (Socialization) کا موقع بھی ملتا ہے اور جن کے ساتھ چھوٹے بچے ہیں ان کے لیے بھی انتظام موجود ہے۔

چند مہینے پہلے ایسے ہی ایک پروجیکٹ کا اعلان پشاور کی صوبائی حکومت نے بھی کیا تھا جس کے مطابق حیات آباد میں خواتین کے لیے ایک ایسا لیڈیز  کلب کھولا جائے گا جس میں  ورزش کے علاوہ لائبریری، کیفے ٹیریا، ڈے کیئر سینٹر اور دیگر کئی سہولیات موجود ہوں گی۔

اس اقدام کو پشاور کی خواتین نے کافی سراہا تھا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ اس شہر اور صوبے کی خواتین کو خاص طور سے اس کی بہت ضرورت ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا میں دہشت گردی کی عفریت نے اس صوبے کی خواتین اور بچوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ صوبے کی سماجی اقدار کے زوال کا سبب بھی دہشت گردی ہی ہے۔ یہ سماجی مسائل الگ سے خواتین کی زندگیوں کو عذاب بنائے رکھے ہیں۔ پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر سلطان کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کی خواتین میں ڈپریشن کا مسئلہ تمام پاکستان کی نسبت زیادہ ہے۔

اگرچہ چند ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود فی الحال سرکاری لیڈیز کلب کے حوالے سے مزید کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے لیکن شہر کے مختلف علاقوں میں پرانے اور نئے نجی جِموں کا فعال ہونا ایک حوصلہ افزا خبر ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فٹنس