پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کے ساتھ ’خفیہ ملاقاتوں‘ کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ نہ تو کسی قسم کی ملاقاتیں جاری ہیں اور نہ ہی متحدہ عرب امارات کا ان میں کوئی کردار ہے۔
شاہ محمود قریشی نے یہ بات ترکی میں مقامی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران کہی۔
دوسری جانب پاکستان کے مقامی انگریزی اخبار ڈان نے رپورٹ کیا ہے کہ ’سرکاری ذرائع نے پاکستان اور بھارت کی خفیہ ملاقاتوں کے سلسلے کو بھارت کی پیشکش کے ساتھ جوڑا ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات کی پیشکش بھارت کی جانب سے آئی تھی، جس پر غور کیا جا رہا ہے اور کشمیر کو ترجیح رکھتے ہوئے مشترکہ نکات پر باضابطہ بات چیت کے لیے ماحول ساز گار کیا جا رہا ہے تاکہ خطے میں دیر پا امن و استحکام رہ سکے۔‘
پاکستان کے اعلیٰ سرکاری ذرائع کی جانب سے بھی اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے کردار کی تردید کی گئی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ امارات میں خفیہ ملاقاتیں ضرور ہوئی ہیں لیکن یہ ملاقاتیں دونوں ممالک کی اپنی مرضی سے کی گئی ہیں، کسی تیسرے ملک نے پاکستان یا بھارت کو اس بات چیت کے لیے مجبور نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کا صرف اتنا ہی کردار ہے کہ دونوں ممالک نے جب خفیہ ملاقاتوں کے لیے جگہ کا تعین کیا تو دبئی نے ملاقات کے لیے خفیہ جگہ مہیا کی، جس کے باعث وہ اس پیش رفت سے آگاہ ہیں اور اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کا ثالثی میں کردار ہے۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے واشنگٹن میں تعینات سفیر نے مذاکرات کی سرکاری سطح پر پہلی تصدیق کی جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے متحدہ عرب امارات کا تین روزہ دورہ کیا۔
وزیر خارجہ نے جب دبئی سے ابو ظہبی کا دورہ کیا تو اس وقت واشنگٹن کے اماراتی سفیر کا بیان سامنے آچکا تھا، لیکن وہاں صحافیوں کے سوالات پر کہا گیا کہ پاکستان بھارت کے مابین کوئی خفیہ ملاقاتیں نہیں ہو رہی ہیں لیکن انہوں نے پاکستان اور بھارت کے پس پردہ مذاکرات میں امارات کے کردار کی واضح تردید نہیں کی بلکہ ترکی پہنچ کر انہوں نے متحدہ عرب امارات کے کسی بھی قسم کے کردار کی سختی سے تردید کر دی۔
انہوں نے کہا کہ یو اے ای پاکستان اور بھارت کا بہت اچھا دوست ہے۔ ’دونوں ممالک کا مشترکہ دوست دونوں ہی ایٹمی طاقتوں سے کہتا رہا ہے کہ دونوں ممالک کو جنگ کا بڑھاوا نہیں دینا چاہیے۔ بہترین طریقہ کار مذاکرات ہی ہیں۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مذاکرات سے کبھی نہیں بھاگا بلکہ بھارت ہمیشہ مذاکرات سے پیچھے ہٹتا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر متحدہ عرب امارات نے کردار ادا کیا بھی ہے تو وزیر خارجہ نے تردید کیوں کی جبکہ پاکستان کے سرکاری ذرائع نے تیسرے ملک میں خفیہ ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے، اس حوالے سے ایک اعلیٰ سفارتی اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ دفتر خارجہ کا پالیسی بیان ہے جس پر وزیر خارجہ نے عمل کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’ڈپلومیسی میں بہت سی باتوں کی فوراً تصدیق نہیں کی جاتی بلکہ جاری عمل کا جائزہ لینے کے لیے وقت حاصل کیا جاتا ہے۔ سارے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد باضابطہ دفتر خارجہ سے تصدیق کی جاتی ہے۔‘
اس حوالے سے سینیئر صحافی فہد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اعلیٰ سرکاری ذرائع سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ دونوں ممالک کی انٹیلی جنس قیادت کے مابین رابطے ہو رہے ہیں اور اس میں کوئی تیسرا ملک براہ راست ملوث نہیں ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ہاں لیکن اس بات کا امکان ضرور ہے کہ یو اے ای میں ملاقات کی جگہ استعمال ہوئی ہو، لیکن یہ طے ہے کہ یہ ملاقاتیں نہ تو بھارتی سرزمین پر ہوئی ہیں اور نہ ہی پاکستانی سرزمین پر۔‘
بھارت میں تعینات سابق سفارت کار عبدالباسط جو پاکستانی اور بھارتی معاملات کے ماہر ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس معاملے پر بتایا کہ ’وزیر خارجہ ٹھیک کہہ رہے ہیں ثالثی اور سہولت کاری میں فرق ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’یو اے ای نے بات چیت کے لیے مقام مہیا کر کے سہولت کاری ضرور کی ہے لیکن اس کو ثالثی نہیں کہا جا سکتا، ثالثی تب ہوتی ہے جب تیسرا فریق دونوں فریقین کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرائے۔‘
عبدالباسط کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کسی ذرائع سے یہ نہیں سنا کہ متحدہ عرب امارات پاکستان اور بھارت کے درمیان پس پردہ میٹنگ کا حصہ رہا ہو۔