’خلع، تصاویر وائرل، ایف آئی اے کے سوال ہراسمنٹ سے کم نہیں‘

خلع کے بعد شہناز کا موبائل چونکہ ان کے شوہر کے پاس تھا تو انہوں نے منگنی کے بعد وٹس ایپ پہ ان سے منگوائی گئی قابل اعتراض تصاویر شہناز کے بھائی کو بھیجیں اور انہیں بلیک میل کرنا شروع کردیا۔

(فائل فوٹو: پکسابے)

پاکستان میں خواتین سے ہراسمنٹ کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتاجا رہا ہے لیکن ایف آئی اے کی جانب سے کئی سال پہلے دی گئی درخواستوں پر بھی کارروائی اب تک ممکن نہیں ہو سکی۔

پشاور کی رہائشی ایک خاتون شہناز (فرضی نام) کے مطابق ان کی دوسال پہلے اپنے ہی کزن سے شادی ہوئی تو ان کے خاوند نے موبائل لے لیا اور کہاکہ اگر گھر والوں سے بھی بات کرنا ہوتو وہ اپنے شوہر کے نمبر سے کر سکتی ہیں۔

شوہر کے گھر والوں نے بھی ناروا سلوک اختیار کیا جس پر ڈیڑھ ماہ میں ہی ان کی علیحدگی ہوگئی اور اپنے والدین کی مرضی سے انہوں نے شوہر سے خلع لے لیا۔

لیکن شہناز کا موبائل چونکہ ان کے شوہر کے پاس تھا تو انہوں نے منگنی کے بعد وٹس ایپ پہ ان سے منگوائی گئی قابل اعتراض تصاویر شہناز کے بھائی کو بھیجیں اور انہیں بلیک میل کرنا شروع کردیا۔

شہناز کے مطابق ان کے خاوند نے یہ تصاویر شہناز کے ذاتی فیس بک اکاؤنٹ سے ان کے فیس بک فرینڈز کو بھیجنا شروع کر دیں اور عجیب وغریب میسیجز بھی کیے جن سے خاتون اور ان کے اہل خانہ کو بہت زیادہ بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔

لہذا انہوں نے ڈیڑھ سال پہلے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے )کے سائبر کرائم ونگ کو اس بارے میں درخواست دی۔

لیکن جب انہیں دفتر بلایا گیا تو ایف آئی اے اہلکاروں کی جانب سے ان کے والد کی موجودگی میں عجیب وغریب سوالات پوچھنا شروع کر دیے گئے جو بذاتہ ایک ہراسمنٹ کا عمل محسوس ہوا۔

’تو ہم نے انہیں کہا کہ ہم ہراساں کرنے والے کے خلاف کارروائی کے لیے آئے ہیں نہ کہ خود اس طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنے، تو ہم واپس آگئے۔‘

اس درخواست پر کوئی کارروائی نہ ہوئی جس کے بعد انہیں ایک سال تک مسلسل ان کے سابق شوہر کی جانب سے معاشرے میں ان تصاویر کے ذریعے تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔

شہناز واحد متاثرہ نہیں جن کو اس طرح کی تاخیرکا سامنا کرنا پڑا ہو بلکہ لاہور کی رہائشی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے بھی دو سال سے ایف آئی اے کو درخواست دے رکھی ہے جس میں ایک لڑکے کی جانب سے انہیں فیس بک اکاؤنٹ ہیک کر کےتصاویر اور میسجز کے زریعے بلیک میل اور ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایف آئی اے اہلکاروں نے انہیں کہا کہ جس کے خلاف وہ درخواست دے رہی ہیں، ایک اعلیٰ افسر کا بیٹا ہے، ان لوگوں کے خلاف کارروائی کا نقصان ہوسکتا ہے۔اس کے بعد وہ بھی مایوس ہوکر خاموش ہوگئیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے کارروائی میں تاخیر کیوں؟

ایف آئی اے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سائبر کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے،ایف آئی اے کی سائبرکرائم ونگ میں روزانہ کی بنیاد پر260 شکایات موصول ہورہی ہیں جن میں سے 21سے 25تک صرف خواتین کو ہراساں یا بلیک میل کیے جانے کی ہیں۔

حکومت مخالف، مذہب مخالف، جعلی اکاؤنٹ، چائلڈ پورنوگرافی کی شکایات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے نیز ہراسمنٹ، دھمکیوں اور دوسری شکایات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

سال 2020 میں 94 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی، میں ایف آئی اے کو 22 ہزار 300 ہراسمنٹ کی شکایات موصول ہوئی، مالی فراڈ کی 48 ہزار شکایات موصول ہوئیں۔

لاہور میں سب سے زیادہ  36 ہزار 700 شکایات، کراچی میں 23 ہزار اور اسلام آباد میں 20 ہزار شکایات موصول ہوئیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم کو فیس بک سے متعلق 42 ہزار 300 شکایات موصول ہوئیں ،ایف آئی اے سائبر کرائم کو واٹس ایپ سے متعلق17ہزار500 شکایات موصول ہوئیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے مہم چلائی جاتی ہے جس میں صارفین کو سوشل میڈیا پر محتاط رہنے سے متعلق آگہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق گزشتہ سال 7ہزار درخواستوں پر عمل کیاگیا اور سینکڑوں افراد کو حراست میں بھی لیاگیا۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر لیگل منعم چودھری کے مطابق ایف آئی اے کے پاس جتنے کیسوں کی ڈائری ہے اس کے مقابلے میں سٹاف بہت کم ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کیس التوا کاشکار ہیں۔

بڑھتے سائبر جرائم کے مطابق قوانین میں تبدیلی کی ضرورت:

منعم چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ حقیقت یہ ہے جس طرح ہر معاملہ ایف آئی اے کے حوالے کردیاجاتاہے اس سے افسران اور اہلکاروں پر کام کا بہت بوجھ ہے ہمارے پاس اتنا عملہ بھی نہیں جتنا کسی چھوٹے شہر میں پولیس کے پاس ہے۔

متعدد بار حکام کو آگاہ کیاگیا لیکن نئے شعبے بننے کے باوجود نئی تقرریاں نہیں کی گئیں۔ کئی برانچز جن میں سائبر کرائم ونگ بھی شامل ہے ضرورت کے مطابق بھی عملہ موجود نہیں۔

انہوں نے کہاکہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جس طرح سائبر جرائم میں اضافہ ہوا ہے اس کے مقابلہ میں قوانین اتنے موثر نہیں کہ ہراسمنٹ جیسے کیسوں میں ملوث ملزموں کے خلاف عبرتناک سزائیں سنائی جاسکیں یہی وجہ ہے کہ ان جرائم کی حساسیست کے مطابق سنگین سزاؤں کے قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔

منعم نے کہاکہ صرف آرٹیکل ،21,20اورسائبر دہشت پھیلانے کی دفعات ناقابل ضمانت ہیں جن کےتحت صرف بچوں کی پورنوگرافی یا دہشت پھیلانے سے متعلق جرم میں ملوث ملزموں کو سخت سزا دی جاسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ ہراسمنٹ کسی کی توہین یا شہرت کو نقصان پہنچانے سے متعلق آرٹیکل 23اور 24کے مطابق معمولی جرمانے اور محدود قید میں سزا ہی سنائی جاسکتی ہے اور بیشتر دفعات قابل ضمانت ہیں اسی لیے سخت محنت کے بعد گرفتار ملزموں کو اگلے ہی دن عدالت سے ضمانت مل جاتی ہے۔ انہوں نے کہا قوانین جرائم کے عین مطابق ہونے چاہییں جن پرنہ زیادہ نہ کم سزا دی جاسکے۔

مثال کے طور پر کسی کے پیسے ٹرانسفر کرانے یا فورجری کے معاملات میں آرٹیکل 15اور 16بھی قابل ضمانت ہیں ۔

ہراسمنٹ کے معاملہ کو بھی سنجیدہ نہیں لیاجاتااور نہ ہی اتنا عملہ موجود ہوتا ہے کہ چھان بین کر کے مقدمہ درج کیاجائے پھر پکڑا جائے اور سزائیں دلوائی جائیں۔

انہوں نے کہاکہ جس طرح سائبر کرائم اور ہراسمنٹ کے جدید طریقے اپنائے جارہے ہیں اسی طرح وقت کے ساتھ سائبر جرائم سے متعلق قانون سازی میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہنی چاہییں اور شعبوں کو مکمل عملہ کے ساتھ فعال بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان