قومی مذاکرات: اب نہیں تو کب؟

اگلے سال کے اوائل میں تمام سیاسی پارٹیوں اور کچھ دوسرے اہم طبقات کی ایک گول میز کانفرنس منعقد ہو جس میں موجودہ نظام کی تمام خامیوں پر بحث اور نظام میں دور رس تبدیلیوں کا فارمولا تیار ہو جسے عوام کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔

حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے مگر پی ٹی آئی کو سیاسی پارٹی کے طور پر اس میز پر ضرور مدعو کیا جاسکتا ہے(اے ایف پی فائل فوٹو)

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


اس وقت پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ کرونا وبا سے مقابلہ ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار پر اعتماد ذرا مشکل سے ہوتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک صرف دو فیصد سے بھی کم لوگوں کو ویکسیسن لگائی گئی ہے۔ بھارت میں کرونا کی وبا تباہی مچا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ وہ وائرس کی نئی منفرد نوعیت ہے جو بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔

پاکستان میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کو اس پر سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے مگر شاید ایسا نہ ہو۔ یہی وہ وقت بھی ہے جب قومی سیاسی مذاکرات کے لیے تیاری شروع کی جانی چاہیے۔

ڈھائی سال پہلے ہم نے موجودہ جمہوریہ کو مسترد (ریجیکٹڈ) قرار دیا اور ایک عوامی جمہوریہ کے قیام کے لیے قومی سیاسی مذاکرات کی تجویز پیش کی۔ شروع میں لوگ اسے مذاق سمجھتے رہے مگر جب اس بات نے زور پکڑا تو بہت سے جعلی مذاکرات کرانے والے آگئے۔

محمد علی درانی کو آپ نہیں بھولے ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے کہنا شروع کیا کے پارلیمان میں مذاکرات ہونے چاہیے۔

کون سی پارلیمان؟ وہ جس کو حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے کھڈے لائن لگایا ہوا ہے اور جسے عوام اپنا نمائندے نہیں سمجھتی۔ روزمرہ کی قانون سازی وہاں ہو سکتی ہے مگر نظام کی تبدیلی کا یہ فورم نہیں ہے۔

پارلیمان اس مسترد نظام کو بچانے کی کوشش کرے گی کیونکہ ان کا مفاد اسی میں ہے اس لیے بھی پارلیمان نئے نظام کا فورم نہیں ہے۔

اب حکومت ایک نیا شوشہ لے کر آئی ہے اور اس نے الیکشن نظام میں اصلاحات کا آرڈیننس جاری کیا ہے۔ تو کیا الیکشن کے دن کی دھاندلی ہی ہمارا سب سے اہم قومی مسئلہ ہے؟ یا بہت سے دوسرے مسائل میں سے ایک ہے؟

دھاندلی تمام پارٹیاں کرتی ہیں اور اگر یہ اپنا رویہ بدل دیں تو مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ اس کا مطب یہ نہیں کہ الیکشن قوانین میں اصلاحات کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کہ اس کے علاوہ بھی دوسرے اہم مسائل ہیں جن پر بات کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ضروری ہے قومی سیاسی مذاکرات میں ان سب پر بات ہو۔

حکومت کے ایک وزیر نے یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ کپتان اسمبلیاں توڑ کر قبل از وقت انتخابات کرا سکتا ہے۔ حکومت کو گرتا دیکھ کر اور ضمنی الیکشنوں میں کامیابی کے بعد حزب اختلاف کی دو اہم پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اصلاحات میں سنجیدہ نظر نہیں آتیں۔ دونوں نے اس مسترد نظام سے بے انتہا فائدہ اٹھایا ہے۔

آج کل دونوں پارٹیاں سوشل میڈیا پر اس بات کی مارکیٹنگ کر رہی ہیں کہ ان کے دور میں گڈ گورننس تھی اور ملک ترقی کر رہا تھا۔

تیزی سے بڑھتا سرکلر ڈیٹ، قرضوں کا بوجھ، رینٹل پاور کا بھوت، بیرونی سرمایہ کاری میں دنیا کی عدم دلچسپی اور بیروزگاری ان کے دور میں بھی اتنی ہی تھی جتنی آج ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آپ سب کو یاد ہوگا انہیں دو پارٹیوں کے ادوار میں بجلی بنانے والوں کو 185ارب روپے مبینہ طور پر زائد دیئے گئے جس کی تحقیق آج تک نہ ہو سکی۔ ٹیکس نہ دینے والوں کو ایمنسٹی سکیمیں اور چینی مافیا کو 20 ارب روپے بھی مبینہ طور پر انہی نے دیئے۔

موٹر وے، میٹرو اور اور نج لائن ضروری منصوبے ہیں مگر انہیں کنزمشن کہا جاتا ہے یعنی قرض لے کر کھانا مگر اس کے ساتھ صنعتی ترقی ضروری ہے تاکہ پیداوار اور برآمدات بڑھیں جس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں مکمل ناکام رہیں۔

اب یہ دونوں پارٹیاں چاہتی ہیں کہ اگلا لاڈلا یہ بنیں اور جلد سے جلد الیکشن ہو۔ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ دائروں کا سفر ہے۔ 

آج میں آپ کے سامنے یہ تجویز رکھ رہا ہوں کے اگلے سال کے اوائل میں تمام سیاسی پارٹیوں اور کچھ دوسرے اہم طبقات کی ایک گول میز کانفرنس منعقد ہو۔

حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہو سکتے مگر پی ٹی آئی کو سیاسی پارٹی کے طور پر اس میز پر ضرور مدعو کیا جائے گا۔ اس میز پر موجودہ نظام کی تمام خامیوں پر بحث ہو اور نظام میں دور رس تبدیلیوں کا فارمولا تیار ہو جسے عوام کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے۔

ہم نے میثاق عوام آپ کے سامنے رکھا۔ اسی طرح پی ڈی ایم نے میثاق پاکستان دیا اور اس کے علاوہ ان کا 26 نکاتی ایجنڈا بھی ہے۔ جماعت اسلامی اپنا پروگرام پیش کرتی رہی ہے۔

ان تمام تجاویز کو اس میز پر لایا جائے اور ایک اتفاق پیدا کیا جائے۔ اس گول میز کانفرنس اور اصلاحات کے بغیر نیا الیکشن وقت کا ضیاع ہوگا اور چاہے کوئی بھی حکومت بنائے حالات بد سے بدتر ہوتے جایں گے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کے موجودہ نظام میں کچھ ایسی خرابیاں ہیں جو مسائل پیدا کرتی رہیں گی۔ 

آپ سے عرض کیا تھا کہ کیلنڈر پر میں نے نشان لگایا ہے۔اس گول میز کانفرنس کے انعقاد کے لیے ارادہ یہ ہے کہ اگر کرونا قابو میں آجائے تو جولائی کے آواخر میں ملاقاتیں شروع کی جائیں تاکہ پارٹیوں کو اس پر آمادہ کیا جائے۔

اس کانفرنس کی تفصیلات اور جزیات بھی تمام پارٹیوں کے ساتھ مل کر بنائی جائیں۔ گول میز کانفرنس صرف اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب سب کھلے دل سے اس پر کام کریں۔ موجودہ منتشر صورت حال میں یہ ناممکن لگتا ہے۔

مگر کوشش برحق ہے اور اگر آپ سب ساتھ دیں تو یہ ایک ممکن کام ہے۔


نوٹ: یہ مضمون مصنف کی ذاتی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ