چین میں آبادی ایک ارب 40 کروڑ مگر اضافہ نہ ہونے کے برابر

تازہ مردم شماری کے مطابق گذشتہ دہائی میں چین کی آبادی میں صرف 0.53 فیصد یعنی سات کروڑ 20 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے، جس سے افرادی قوت کی کمی کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔

بیجنگ کی سڑکوں کا ایک منظر، چین میں حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک میں ایک ارب 40 کروڑ آباد ہیں (اے ایف پی)

چین میں ہونے والی تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق منگل کو حکومت کے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق چین کی آبادی نہ بڑھنے سے بڑھتی عمر کے معاشرے میں افرادی قوت کی کمی کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔

چین کے نیشنل بیورو آف سٹیٹسٹکس  (قومی ادارہ شماریات) کے مطابق گذشتہ دہائی میں چین کی آبادی میں صرف سات کروڑ 20 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ ملکی سطح پر ہونے والا اضافہ 0.53 فیصد رہا ہے جو کہ گذشتہ دہائی کے مقابلے میں 0.4  فیصد کم ہے۔

چین میں 1980 کی دہائی سے بچوں کی پیدائش کی ایک حد مقرر کی گئی تھی تاکہ ملک کی آبادی کو قابو میں رکھا جا سکے لیکن بڑھتی عمر کے افراد میں اضافے کے باعث معیشت کے لیے مشکلات پیدا ہونے کے خدشات سامنے آ رہے ہیں، جس کے بعد زیادہ بچوں کی پیدائش پر عائد پابندیوں میں نرمی لائی گئی ہے لیکن زیادہ تر جوڑے زیادہ اخراجات، گھروں کی کمی اور ملازمتوں میں ماؤں کے خلاف صنفی تعصب کے باعث ایسا کرنے پر مائل نہیں ہو سکے۔

بچوں کی آبادی کا تناسب 2010 میں سامنے آنے والی تعداد کے قریب رہا ہے لیکن 60 سال اور اس سے زائد عمر کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کام کرنے والے افراد جن کی عمر 15 سے 59 سال ہے کی تعداد میں پانچ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ سال 2011 میں یہ تعداد اپنی بلند ترین سطح یعنی 92 کروڑ 50 لاکھ تھی جبکہ اب یہ تعداد 89 کروڑ 40 لاکھ ہے۔

چین ایشیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں معمر افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کچھ ماہرین اسے چین کے لیے ’ڈیموگرافک ٹائم بم‘ قرار دیتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیکنگ یونیورسٹی میں پاپولیشن سٹڈیز کے پروفیسر لو جی ہوا کا کہنا ہے کہ ہم کام کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے ہونے والی کمی کی وجہ سے فکر مند ہیں۔‘ 

لو کے مطابق سال 2011 کے مقابلے میں سال 2050 میں کام کرنے والے افراد کی تعداد میں تین چوتھائی یا نصف تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سال 2016 میں چینی حکومت نے دہائیوں تک رائج رہنے والی متنازع ’ون چائلڈ‘ پالیسی میں نرمی لاتے ہوئے جوڑوں کو دو بچوں کی اجازت دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود رواں سروے میں آبادی میں ہونے والا اضافہ 1960 کے بعد سے سست ترین ہے۔ 

چین کے قومی ادارہ شماریات کے عہدیدار ننگ جیزہی کا کہنا ہے کہ ’اس پالیسی نے مثبت نتائج ظاہر کیے ہیں لیکن بڑھتی ہوئی معمر آبادی نے آبادی اور ترقی پر دباؤ برقرار رکھا ہے۔‘ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی وبا نے روز مرہ کی زندگی میں غیر یقینی صورت حال میں اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ بچوں کو ہسپتالوں میں جنم دینے یا پیدا کرنے کے حوالے سے خدشات کا شکار ہیں۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سال 2020 میں چین میں ایک کروڑ 20 لاکھ بچے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ تعداد 2019 میں پیدا ہونے والے ایک کروڑ 40 لاکھ بچوں کے مقابلے میں واضح طور پر کم ہے۔ یہ شرح پیدائش سال 1949 میں چین کے وجود میں آنے سے اب تک کی سست ترین ہے۔  

مردم شماری کے مطابق چین میں اوسط خاندان دو اعشاریہ 62 نفوس پر مشتمل ہے جبکہ دس سال قبل یہ شرح تین اعشاریہ دس تھی۔ 

اس کے برعکس چین کی شہری آبادی میں 23 کروڑ 64 لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو کہ گذشتہ سروے کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ ہے۔ اس وقت چین کی تین فیصد آبادی شہری علاقوں میں رہتی ہے۔ 

چین میں آبادی میں اضافے کو جانچنے، نقل مکانی کے رجحانات اور حساس معلومات جمع کرنے کے لیے ہر دس سال بعد مردم شماری سروے کیا جاتا ہے جو حکومت کو ان معاملات کے حوالے سے پالیسیز مرتب کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا