کل تک جو بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی آج مہاجرین کی پناہ گاہ ہے

جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں ایک ہزار سال قدیم تاریخی شاہی شہر کے کھنڈرات، جو کبھی سلطانوں کی موسم سرما میں رہائش گاہ ہوا کرتی تھی اب مہاجرین کی پناہ گاہ ہے۔

جنوبی افغانستان کے صوبہ ہلمند میں ایک ہزار سال قدیم تاریخی شاہی شہر کے کھنڈرات، جو کبھی سلطانوں کی موسم سرما میں رہائش گاہ ہوا کرتی تھی اب مہاجرین کی پناہ گاہ ہے۔

اسلامی سلطنت کے بادشاہ موسم سرما میں قدیم شہر ہلمند کا رخ اس یے کرتے تھے کیونکہ یہاں کی آب و ہوا دیگر علاقوں کی نسبت گرم ہوتی تھی۔

 آج افغان حکومت کے خلاف طالبان کی جنگ میں اپنے گھروں سے محروم ہونے والے سینکڑوں افراد ان قدیم کھنڈرات کی طرف آئے اور وہیں آباد ہو گئے۔

یہ تباہ شدہ عمارتیں آج بھی انسان کو حیرت میں ڈال دیتی ہیں جو دریائے ہلمند کے کنارے واقع ہے۔ 

شہری ترقی، کھدائی اور غیر پیشہ ورانہ تعمیرات اس کے وجود کے لیے خطرہ ہیں، لیکن اس کی دبی ہوئی دیواریں اور عمارتیں اب بھی کھڑی ہیں۔

رواں سال اکتوبر میں ہلمند میں طالبان کے حملوں میں اضافے کے ساتھ ہی ہزاروں افراد اپنی املاک سے محروم ہوئے اور بے گھر ہوگئے۔

اگرچہ بہت سے لوگ نسبتاً بہتر وسطی ہلمند کیمپ میں آباد ہونے کے قابل تھے، لیکن سینکڑوں مزید مہاجر کیمپوں کے کھنڈرات میں آباد ہو گئے۔

ماہرین آثار قدیمہ نے اس سائٹ کا نام لشکرِ گاہ رکھا ہے، لیکن مقامی افراد اس کو کوہنا کیسل کہتے ہیں، جو اس کی نوادرات اور حیرت انگیز فن تعمیر کی وجہ سے بین الاقوامی توجہ مبذول کر لی ہے۔

یہ محلہ، جو دس کلومیٹر کے رقبے میں واقع ہے، غزنوی اور غوری بادشاہوں کی رہائش گاہ تھی جنہوں نے دسویں سے 13ویں صدی میں اس خطے پر افغانستان کے ایک حصے پر حکمرانی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزنوی اور غوری دور دراز کے شمالی ہندوستان میں اسلامی فن کو متعارف کروانے کے ذمہ دار تھے۔

افغانستان میں فرانسیسی آثار قدیمہ مشن کے سربراہ فلپ مورگس نے اے ایف پی کو بتایا ’اسلامی دنیا میں اس طرح کی کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔‘ 

’یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمسایہ ہم آہنگ، خوبصورت اور نسبتاً محفوظ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ اس شہر کی حفاظت کرنا ضروری ہے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ غزنوی اور غوری ادوار کے بارے میں بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔‘

قدیم برجوں، دروازوں اور کھڑکیوں کے درمیان دیواریں تنکے اور کیچڑ سے بنی ہیں تاکہ ان کو مزید پائیدار بنایا جاسکے۔

ایک نیلے رنگ کا آہنی دروازہ وہ راستہ ہے جو آغا محمد کے گھر کی طرف جاتا ہے، جو 11 افراد کے خاندان کے لیے ایک پناہ گاہ بن گیا ہے۔ 

ایک 33 سالہ پولیس اہلکار جن کا اپنا شہر طالبان کے قبضے میں ہے کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتا ہوں کہ حکومت مجھے رہنے کے لیے جگہ دے۔ دیوار میں دراڑیں دیکھیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ راتوں رات گر جائے گی۔‘

ایک 48 سالہ والدہ حلیمہ نے محل کی دیواروں کے پیچھے سے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں نے اس حکومت کے لیے اپنے تین بیٹوں کی قربانی دی اور اس اس حکومت ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

اس پرانے قصبے کے بہت سارے رہائشی پولیس افسران کے خاندان ہیں جو کرایہ ادا نہیں کرسکتے ہیں جبکہ انہیں یہاں بھی پانی اور بجلی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ 

محکمہ آثار قدیمہ کے ایک عہدیدار نے یہ بھی بتایا کہ شہر میں زمینوں کے قبضے کی اطلاعات ہیں اور کچھ خاندان مقامی مافیا کو کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

54 سالہ بایک زرگ کہتے ہیں کہ ’یہ بھوتوں کے لیے جگہ ہے، انسانوں کے لیے نہیں۔‘

اس شہر کی شناخت پہلی مرتبہ 1950 میں فرانسیسی آثار قدیمہ کے سروے کے دوران ہوئی تھی جس کے بعد اس کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

ماہرین آثار قدیمہ اس وقت مساجد، محلات اور دیگر ڈھانچے جیسے فیکٹریوں، مٹی کے برتنوں اور آئس بکسوں کی نشاندہی کرنے کے قابل تھے تاکہ تازہ کھانا محفوظ کریں۔ 

حیرت انگیز دریافتوں میں پینٹنگز کی ایک سیریز کی دریافت ہے جو عدالت کے مناظر کو پیش کرتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا