مہاجرین کی یاد میں بننے والا ’بابِ پاکستان‘ 30 سال بھی نامکمل

کئی حکومتیں آنے کے باوجود 80 کی دہائی میں منظور ہونے والا بابِ پاکستان کا منصوبہ کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود آج بھی ویران پڑا ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں والٹن روڑ پر 30 سال پہلے بابِ پاکستان کا سنگ بنیاد رکھا گیا، جس کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود یہ آج تک مکمل نہیں ہوسکا۔

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پنجاب کے سابق اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے 2018 میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد موجودہ حکومت بھی اس پر کوئی کام نہ کر سکی۔

قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی تاخیر کے شکار اس منصوبے کا نوٹس لیا اور سیکرٹری بابِ پاکستان سے ریکارڈ کے ساتھ اس میں تاخیر کی وجوہات بھی طلب کر لیں۔

بابِ پاکستان کی اہمیت

بابِ پاکستان وہ مقام ہے جہاں قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کا سب سے بڑا پڑاؤ بنایا گیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تفصیل کے مطابق 13 فروی 1985 کو ضیا الحق نے یہاں مہاجرین کی یاد میں ایک ہال، لائبریری اور پارک بنانے کی منظوری دی تھی۔

مسلم لیگ کے رہنما غلام حیدر وائیں، جو پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے، خود بھی مہاجر کی حیثیت سے والٹن کیمپ میں مقیم رہے تھے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان سے خصوصی ذاتی وابستگی کے پیش نظر اس منصوبے پر توجہ دی اور فروری 1991 میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشرف کو منصوبے کی مجوزہ جگہ پر مدعو کیا اور ان سے استدعا کی کہ فوج کے زیر استعمال حکومتِ پنجاب کی چار سو ایکڑ اراضی میں سے ایک سو ایکڑ زمین ’بابِ پاکستان‘ کی تعمیر کے لیے حکومتِ پنجاب کو دی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس منصوبے کے لیے 75 ایکڑ اراضی فراہم کی گئی، تاہم اس میں سے ساڑھے دس ایکڑ زمین بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے زیر استعمال تھی۔ غلام حیدر وائیں نے حوصلہ نہیں ہارا اور ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اپنی نوعیت کے اس منفرد منصوبے کا افتتاح کروایا، مگر ابھی منصوبے کے لیے زمین کی فراہمی وغیرہ کے ابتدائی مراحل بھی طے نہ ہو پائے تھے کہ میاں نواز شریف اور ساتھ ہی غلام حیدر وائیں کی حکومت ختم ہوگئی اور یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔

ایک اندازے کے مطابق 1947 میں دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت عمل میں آئی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کم و بیش ایک کروڑ 40 لاکھ تھی، جن میں 80 لاکھ مسلمان تھے جو پاکستان آئے تھے اور 60 لاکھ ہندو اور سکھ پاکستان سے بھارت گئے تھے۔

جسٹس منیر کی رپورٹ کے مطابق اس دوران تین لاکھ مسلمان مہاجرین نے جانوں کی قربانی دی جبکہ ایک لاکھ مسلمان خواتین اغوا کی گئیں، جن میں سے بہت کم تعداد بعد میں بازیاب ہوسکی۔ ان بازیاب ہونے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد کو والٹن میں قائم ہاسٹل میں رکھا گیا۔ یہاں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک الگ اندوہناک داستان ہے، جس کی ایک جھلک قدرت اللہ شہاب مرحوم نے اپنی تحریر ’یاخدا‘ میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔

منصوبے میں تبدیلی اور تعمیرات

2006 میں سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا اور ڈیزائن میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ ایک بار پھر منصوبے پر عمل درآمد شروع ہوا، جس پر 35 سے 40 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔

نئے ڈیزائن کے مطابق بابِ پاکستان 110 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہوگا، جبکہ یادگار کی بلندی 150 فٹ ہوگی جس میں تقریباً 85 کنال پر مشتمل تاریخی علمی پارک، ایک لائبریری، آڈیٹوریم، پلے لینڈ، جمنازیم، کینٹین، جھیل، واکنگ ٹریک، بائیک ٹریک، سروس اینڈ ایڈمنسٹریشن بلاک، شاپنگ کمپلیکس، ریسٹورنٹ، کمپیوٹر لیب اور ورکشاپ کے علاوہ اوپن ایئر تھیٹر ہوگا۔

اس منصوبے پر تعمیراتی کام بھی شروع ہوا لیکن پرویز مشرف کی حکومت 2008 میں ختم ہوتے ہی یہ منصوبہ پھر تعطل کا شکار ہوگیا جبکہ اس پر کروڑوں روپے خرچ بھی ہوچکے تھے۔

وفاق میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں اس منصوبے پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ تاہم 2013 میں مسلم لیگ ن نے اقتدار سنبھالا تو اپنے حلقہ انتخاب میں بننے والے اس منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کوششیں کیں، جو کامیاب نہ ہوئیں۔

حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی 2018 میں میاں محمود الرشید کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا مگر عدالتی حکم کے باوجود یہ منصوبہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد بھی شروع نہ ہوا۔

لاہور کی تاریخ پر کئی کتابیں تحریر کرنے والے مصنف طاہر اصغر کہتے ہیں کہ ’بابِ پاکستان قیام پاکستان کے وقت ہجرت کی تاریخی یادگار ہے، جو اپنا گھر بار وطن کی محبت میں چھوڑنے والوں کی یاد تازہ کرتی ہے، لیکن 30 سالوں سے اس منصوبے کے مکمل نہ ہونے سے حکومتوں کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران اپنا تاریخی اثاثہ قائم کرنے کو بھی تیار نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بابِ پاکستان ایسا منصوبہ ہے جسے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے لیے عظیم یادگار کے طور پر متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خطیر رقم خرچ ہونے کے بعد بھی اس کا مکمل نہ ہونا افسوسناک ہے کیونکہ اب تو ہجرت کر کے آنے والے بھی دنیا سے رخصت ہوگئے، یہ دیکھے بنا کہ ان کی کاوشوں اور قربانیوں کی یادگار ان کے بعد بھی موجود ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا