سرینگر: لاک ڈاؤن میں خواجہ سراؤں کوکھاناکھلانےوالے نوجوان

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت نے پہلے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اور پھر کرونا وائرس کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن نافذ کیا تھا، جس سے خواجہ سراؤں کی آمدنی نہ ہونے کے برابر رہ گئی اور انہیں کھانے کے لالے پڑگئے۔

سری نگر کے ایک خوشحال محلے میں ایک دوسرے سے جڑے مکانات کے درمیان راستہ ایک خواجہ سرا کے گھر کو جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سری نگر کے کئی خواجہ سرا ہفتے میں ایک بار ملتے ہیں، اپنے غم اور خوشیاں بانٹتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے دکھڑے سناتے ہیں۔

اس گھر کے ایک کمرے میں موجود خواجہ سرا اپنی برادری کو درپیش ان مسائل پر بات کر رہے ہیں، جن کا انہیں اگست 2019 سے جاری لاک ڈاؤن سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ لاک ڈاؤن بھارتی حکومت نے پہلے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اور پھر کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران نافذ کیا تھا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں موجود خواجہ سرا برادری رشتے کروانے اور شادیوں کے دوران ناچنے گانے کا کام کرتی ہے۔ ان کا یہ کام اب ایسے افراد کے اس شعبے میں آنے سے متاثر ہوا ہے، جو خواجہ سرا نہیں ہیں۔

خواجہ سرا خوشی میر کے مطابق مسلسل لاک ڈاؤن نے انہیں باقی آمدن سے بھی محروم کر دیا ہے۔

اگرچہ خواجہ سرا برادری کے مسائل ختم نہیں ہوئے لیکن وہ کسی حد تک سکون کا سانس لے سکتے ہیں کیونکہ سری نگر کے نوجوانوں کے ایک گروپ نے خواجہ سرا برادری کے لیے کھانا فراہم کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس گروپ کا ہدف 400 افراد تک کھانا پہنچانا ہے اور وہ سینکڑوں لوگوں تک پہلے ہی کھانا پہنچا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گروپ میں شامل ایک طالب علم حارث نے بتایا: ’ہم نے رمضان میں 50 گھرانوں کو کھانا پہنچانے کا کام شروع کیا تھا۔ اسی دوران خواجہ سرا برادری نے ہم سے رابطہ کر کے کہا کہ ہم ان کی مدد بھی کریں۔ اس وقت صورت حال بہت بری تھی کیونکہ کوئی ان کی مدد نہیں کر رہا تھا یہاں تک کے حکومت بھی نہیں۔‘

بقول حارث: ’ ہم نے 400 خواجہ سراؤں کی فہرست تیار کی جس کے بعد ہمیں ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد بھی حاصل ہو گئی۔ اس تنظیم کا نام یو این سی ایف ہے اور یہ ممبئی سے تعلق رکھتی ہے جبکہ بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر ڈاکٹر اقصیٰ اور میوچل ایڈ انڈیا نے بھی فنڈ جمع کرنے کے دوران ہماری مدد کی ہے۔‘

خواجہ سرا فلک خان کا کہنا ہے کہ ’خوراک کے اس ڈبے میں 25 کلو چاول، پانچ کلو کھانا پکانے کا تیل، مصالحے اور روز مرہ ضرورت کی اشیا ہوتی ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ کئی سال اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیر میں موجود خواجہ سرا کافی مشکلات کا شکار ہیں اور حکومت ان کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔

دوسری جانب خوشی میر کا کہنا ہے: ’یہ صرف کھانے کی بات نہیں ہے۔ اگر ہم ویکسینیشن سینٹر جائیں یا ٹیسٹ کروانے جائیں تو لوگ ہم پر طنز کرتے ہیں۔ حکومت سو رہی ہے۔ کسی کو تو ہماری مدد کرنی ہو گی۔‘

انہوں نے بتایا کہ کشمیر میں لگ بھگ چار ہزار کے قریب خواجہ سرا رہائش پذیر ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا