صحرا میں پیدل چلتی پانچ سالہ بچی شدت پیاس سے چل بسی

اس افسوس ناک واقعے پر یونین واٹر منسٹر گجیندرا سنگھ شیخاوت نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو اس بچی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

بچی کی لاش راجستھان کے علاقے رانی وادا میں ریت کے ٹیلوں کے پاس ایک چرواہے کو ملی جس نے مقامی افراد کو اس بارے میں اطلاع دی(این ڈی ٹی وی)

بھارت کے شمالی علاقے میں ایک پانچ سالہ بچی صحرائی ٹیلوں کے درمیان پیدل چلتے ہوئے شدت پیاس کے باعث چل بسی۔

ضلعی حکام نے میڈیا کو بتایا کہ اس بچی کو اپنی بے ہوش دادی کے قریب ہی پایا گیا تھا۔ بچی اور اس کی دادی دونوں دس کلو میٹر دور ایک گاؤں تک پیدل جا رہی تھیں۔ ان کے اس سفر کا مقصد دادی کی بہن سے ملاقات کرنا تھا۔

بچی کی لاش راجستھان کے علاقے رانی وادا میں ریت کے ٹیلوں کے پاس ایک چرواہے کو ملی جس نے مقامی افراد کو اس بارے میں اطلاع دی۔

یہ بچی اپنی دادی کے ساتھ ہی رہ رہی تھی جن کا نام سکھی بتایا گیا ہے۔

مقامی پولیس کے عہدیدار پدما رام رانا نے ٹیلی ویژن این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ 'بظاہر ان خاتون اور ان کی پوتی کے پاس پانی نہیں تھا اور یہ ہی ان موت کی وجہ بھی دکھائی دیتی ہے۔'

دادی اور پوتی دونوں ہی شدید گرمی اور حبس کے باعث بے ہوش ہو گئیں۔ پانچ سالہ بچی سورج کی شدید تپش کی تاب نہ لا سکی اور چل بسی۔ جبکہ بچی کی دادی اس وقت ایک مقامی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

اس افسوس ناک واقعے پر یونین واٹر منسٹر گجیندرا سنگھ شیخاوت نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے راجستھان کی ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مرکزی حکومت کے 'جل جیون مشن' کو نظر انداز کرنے پر پانچ سالہ بچی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

 حکومتی ویب سائٹ کے مطابق جل جیون مشن جس کا مطلب 'پانی زندگی ہے مشن' کا مقصد بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر گھر تک سال 2024 تک انفرادی طور پر پینے کا صاف اور کافی پانی پہنچانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنی ٹویٹس میں یونین منسٹر نے راجستھان حکومت پر 'جل جیون مشن کے لیے ملنے والے بجٹ کو استعمال نہ کرنے' کا الزام عائد کیا ہے۔

دوسری جانب ضلع جالور کی کلیکٹر نمرتا ورشنی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ابھی تک کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ یہ بچی اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھی۔ ان کے مطابق اس بچی کی ماں کئی سال پہلے ہی گھر چھوڑ کے چلی گئی تھیں۔

نمرتا ورشنی کا کہنا تھا کہ 'اس بچی کی ماں کئی سال پہلے دوسری شادی کے لیے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔'

ان کے مطابق بزرگ خاتون سکھی نے کئی ماہ سے اپنے راشن کارڈ کا استعمال نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'مقامی افراد کہتے ہیں کہ یہ بچی اور دادی کبھی کھانا مانگ کر کھا لیتی تھیں اور کبھی ان کے ہمسایے ان کو کھانا فراہم کر دیتے تھے۔'

حکام نے زیر علاج خاتون کے رشتہ داروں سے رابطہ کیا ہے اور ان کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا