اس بجٹ میں عام آدمی کے لیے کیا ہے؟

اکرم سوچ رہا ہے کہ جو بجٹ غریب کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے وہ کبھی بھی کامیاب بجٹ نہیں ہو سکتا۔

پشاور کے  مزدور سڑک کنارے دیہاڑی   لگنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اکرم کو 11 جون کا بے صبری سے انتظار تھا۔ وہ کئی دنوں سے یہ سن رہا تھا کہ اس مرتبہ جو بجٹ پیش ہوگا وہ غریب دوست ہوگا  اور اس میں عوام کے لیے ریلیف ہی ریلیف ہوگا۔

اس نے سنا تھا کہ نئے بجٹ میں آئی ایم ایف کی کوئی بات نہیں مانی جائے گی، نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے بلکہ پہلے سے عائد ٹیکس کم کر دیے جائیں گے۔ وہ سوچنے لگا تھا کہ آٹا، دال، چینی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی ہو جائے گی اور دو وقت پیٹ بھر کر روٹی کھا سکیں گے، لیکن جب بجٹ پیش ہوا تو اکرم کے لیے اس میں ایک بھی خوشی کی خبر نہیں تھی۔

اسے پتہ چلا کہ 8487 ارب اخراجات کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا ہے، جب کہ پچھلے سال اس کا حجم 7136 ارب تھا۔ یہ اضافہ 19 فیصد بنتا ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ اتنے اخراجات ہوں گے تو اس میں میرے لیے بھی کچھ ضرور ہوگا، لیکن بجٹ کے اختتام پر اسے مایوسی ہوئی۔ کیونکہ اس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی متاثر کن منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔

بجٹ سننے کے بعد وہ سوچنے لگا کہ جس کام کا حکومت نے سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹا ہے وہ گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی ہے۔ مقامی سطح پر تیار ہونے والی 850 سی سی پاور تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے، جس سے تقریباً 113,000 روپے تک قیمت میں کمی آنے کی امید ہے، لیکن اس کے لیے اس خبر میں خوشی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ کئی سالوں سے ایک نئی موٹرسائیکل لینے کا منصوبہ بنا رہا ہے لیکن معاشی حالات نے اجازت نہیں دی۔ وہ کہنے لگا کہ ’غریب آدمی گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، میرے لیے اس بجٹ میں خوشی اس وقت ہوتی جب موٹر سائیکل کی قیمت کم ہو جاتی اور وہ میرے بجٹ میں آ جاتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ماہ قبل ہی موٹرسائیکل کمپنیوں نے بغیر کوئی وجہ بتائے 3000 روپے مزید قیمتیں بڑھائی ہیں۔ میں وزیر خزانہ سے اس وقت خوش ہوتا جب اس قیمت کے بڑھنے کی وجہ پوچھی جاتی، قیمتیں کم کروائی جاتیں اور نئے بجٹ میں بلاوجہ قیمتیں بڑھانے والوں کو سخت سزائیں سنائی جاتیں۔‘

اس نے سنا کہ سرکاری ملازمین کی کم سے کم تنخواہ 20 ہزار مقرر کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ وفاقی ملازمین کی پنشن اور ماہانہ تنخواہ میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔

وہ پھر سوچنے لگا کہ ’مجھے اس سے کیا فائدہ، میں ایک نجی کمپنی میں ملازم ہوں۔ پہلے 22 ہزار ماہانہ تنخواہ تھی جو کرونا کے بعد کمپنی نے گھٹا کر 18 ہزار کر دی ہے۔ سالانہ تنخواہ بڑھنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ مالک سے تنخواہ بڑھانے کی بات کروں تو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دے دیتا ہے۔ مارکیٹ میں بے روزگاری اتنی ہے کہ نوکری چھوڑنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے۔ میرے لیے تو حکومتی اعلان اس وقت کارآمد ہوگا جب سرکار میرے مالک کو بھی تنخواہیں بڑھانے پر پابند کرے، عمل نہ کرنے پر سزا دے اور میری آمدن بھی بڑھ سکے۔‘

اسے پتہ چلا کہ موبائل سے فون کرنے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے پر مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ ہر تین منٹ کی کال کے بعد ایک روپیہ، ایس ایم ایس پر صفر اشاریہ ایک روپیہ اور انٹرنیٹ کے استعمال پر پانچ روپے فی جی بی ٹیکس لیا جائے گا۔ وہ سوچنے لگا کہ وہ ملتان میں مقیم اپنی ماں، بہن اور بھائی سے پیکج لگا کر فون پر ایک گھنٹہ بات کر لیتا تھا۔ اب مزید ٹیکس لگنے سے کیا وہ لمبی بات کر سکے گا یا نہیں۔ والدین سے بات کرنا ڈپریشن دور کرنے کا ایک سہارا ہے۔ نیا ٹیکس لگنے سے اب وہ سہولت قائم رہ پاتی ہے یا نہیں۔ وہ ابھی اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ حماد اظہر صاحب کا ایک بیان ٹی وی پر چلا کہ انٹرنیٹ ڈیٹا پر ایف ای ڈی وزیراعظم اور کابینہ نے منظور نہیں کیا۔اسے فائنل ڈرافٹ میں پارلیمنٹ سے منظوری میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ یہ خبر سن کر اسے تھوڑی تسلی ہوئی لیکن وہ سوچنے لگا کہ یہ کیسی حکومت ہے دو گھنٹے پہلے پارلیمنٹ میں کچھ کہتی ہے اور دو گھنٹے بعد نیا بیان دے دیتی ہے۔ اب پتہ نہیں کل کوئی اور بیان آ جائے اور کوئی نیا ٹیکس لگا دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نے سنا کہ مالی سال 22-2021 میں مہنگائی کی شرح 8.2 فیصد رکھنے کا ہدف طے کیا گیا ہے۔ اس نے ایک معاشی ماہر دوست کو فون کر کے پوچھا کہ ’کیا اس سے مہنگائی کم ہو جائے گی؟‘

دوست نے بتایا کہ پچھلے بجٹ میں مالی سال 21-2020 کے لیے حکومت نے مہنگائی کی شرح ساڑھے چھ فیصد طے کی تھی، جبکہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی 10.8 فیصد ہے۔ اس سال حکومت مہنگائی کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اگر حکومت اسی رفتار سے چلتی رہی تو اگلے سال مہنگائی کی شرح 16 فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔ حدف طے کرنا مہنگائی کم کرنا نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ مافیاز پر قابو پانا ہوتا ہے، لیکن ماضی میں حکومت نے جس مافیا پر بھی ہاتھ ڈالا ہے اسی شعبے میں مہنگائی بڑھی ہے۔ موثر حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کا کم ہو جانا مشکل ہے۔

وزیر خزانہ نے فرمایا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے، جبکہ اس ماہ اکرم کی آدھی تنخواہ بجلی کے بل میں چلی گئی۔ دوست نے بتایا کہ نیپرا آرڈیننس کے تحت پانچ روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کر دی گئی ہے۔ یہ آرڈیننس اگلے ماہ ختم ہو رہا تھا، جس کے بعد صرف ایک مرتبہ صدر کی جانب سے مزید چار ماہ کی توسیع مل سکتی ہے اور پھر خودبخود ختم ہو جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ اسے اسمبلی سے منظور کروایا جائے تاکہ نیپرا جب چاہے بجلی مہنگی کر دے۔ حکومت کی جانب سے اس پر سر تسلیم خم کیا گیا ہے۔ اکرم سوچنے لگا کہ ہر بات تو آئی ایم ایف کی مان رہے ہیں ہھر بھی کہتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیتے۔

اکرم کو کھانے پینے کی اشیا کی قیمت کم ہونے کی امید تھی لیکن شوکت ترین صاحب نے فرمایا کہ پاکستان اشیائے خوردونوش کا خالص درآمد کنندگان بن گیا ہے۔ ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود آٹا، چینی، کپاس، دالیں سبزیاں درآمد کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی بڑھی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم کسانوں کو سستے قرضے دیں گے۔ وہ پیداوار بڑھائیں گے جنہیں برآمد کیا جائے گا۔ اس سے ملکی ضرورت بھی پوری ہو گی اور مہنگائی میں بھی کمی آئے گی۔ اکرم سوچنے لگا کہ یہ الف لیلیٰ کی کہانیاں پچھلے 70 سالوں سے سنائی جا رہی ہیں لیکن عملی شکل نظر نہیں آتی۔ صرف قرض دینے سے ڈرامائی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ یہ مکمل سائنس ہے جس کے لیے وقت، افرادی قوت اور پلاننگ کی اشد ضرورت ہے۔

دوست نے بتایا کہ حکومت نے 5829 ارب روپے کا ٹیکس ہدف طے کیا ہے جو کہ پچھلے سال کی نسبت تقریباً 17.4 فیصد زیادہ ہے۔ مالی سال 2021 میں ٹیکس ہدف 4963 ارب روپے تھا۔ یہ اضافی ٹیکس آمدن عوام کی جیبوں سے نکالی جائے گی۔

اکرم سوچنے لگا کہ وزیرخزانہ نے تو کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی کوئی بات نہیں مانی گئی اور نہ ہی کوئی نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، لیکن 800 ارب روپوں کے اضافی ٹیکس عوام سے ہی وصول کیے جائیں گے جو کہ آئی ایم ایف کی مرضی کے مطابق ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم کی تعمیل کی ہے اور اضافی ٹیکس بھی لگائے ہیں۔

اسے پتہ چلا کہ وزرات خزانہ نے آئی ایم ایف کو پلاننگ تقریباً 53 کھرب کی بھیجی ہے، جبکہ ہدف 58 کھرب کا ہے۔ جب بقیہ کی پلاننگ مانگی گئی تو حکومت نے کہا کہ انتظامی معاملات بہتر کر کے اسے پورا کیا جائے گا۔ اس غیر سنجیدگی کے باعث آئی ایم ایف قرض کی قسط رکی ہوئی ہے۔ وزیراعظم اگلے ہفتے آئی ایم ایف صدر سے ملاقات کر رہے ہیں، جس کے بعد منی بجٹ آنے کی امید ہے اور نئے ٹیکسز لگ سکتے ہیں۔ اس خبر نے اکرم کی پریشانی بڑھا دی ہے۔ وہ سوچنے لگا کہ سہولت تو کوئی ملی نہیں صرف ٹیکس ہی لگائے جارہے ہیں۔

اس نے سنا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے 2135 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ پچھلے سال بجٹ 1324 ارب روپے تھا۔ یہ اضافہ 37 فیصد بنتا ہے۔ وفاقی منصوبوں کے 900 ارب مختص ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 27.7 فیصد زیادہ ہیں اور صوبائی منصوبوں کے لیے 1235 ارب رکھے گئے ہیں جو پچھلے سال کی نسبت 45 فیصد زیادہ ہیں۔ اکرم کو پتہ چلا کہ اس اضافے کی سب سے بڑی وجہ الیکشن ہیں۔ حکومت تین سال پورے کر چکی ہے۔ چوتھے سال میں ڈویلپمنٹ کے کام کرے گی تو پانچویں سال عوام سے ووٹ مانگے گی، یعنی کہ سیاستدانوں کو خوب نوازا جائے گا۔

وہ سوچنے لگا کہ اب میرے گھر کی گلی بھی شاید پکی ہو جائے۔ پچھلے سال میرے علاقے کے ایم پی اے کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ جاری ہوا تھا لیکن پورے علاقے میں ایک بھی ڈویلپمنٹ کا کام نہیں ہوا تھا۔ مگر ایم پی اے صاحب نے نئی گاڑیاں اور نئے ذاتی گھر ضرور خریدے تھے۔ بڑے دعوے کر دینا آسان ہے لیکن انھیں عملی جامہ پہنانا مشکل عمل ہے۔

اس نے جانا کہ نئے سال کے لیے شرح نمو 4.8 فیصد طے کی گئی ہے، جسے حقیقی معنوں میں حاصل کرنا بظاہر ناممکن لگتا ہے۔ سال 2021 کی شرح نمو 3.94 بتائی گئی تھی جسے سٹیٹ بینک اور وزرات خزانہ نے ماننے سے انکار کیا۔ بعدازاں حکومتی دباؤ کی وجہ سے خاموشی اختیار کی گئی تھی۔ یہ شرح نمو عام آدمی کی مالی حالت سے بھی مطابقت نہیں رکھتی۔

بجٹ کے اختتام پر اکرم سوچنے لگا کہ مجھ جیسے کروڑوں پاکستانیوں کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں ہے۔ میں اپنا دکھ کسے سناؤں اور اپنے معاشی مسائل کے حل کے لیے کہاں جاؤں۔ وہ کہنے لگا جو بجٹ غریب کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے وہ کبھی بھی کامیاب بجٹ نہیں ہو سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ