بلاول بھٹو اور حکومت کے بیٹے

یہ حقیقت ہے کہ پی پی پی کے پاس کسی کے بیٹے پکڑنے کی صلاحیت ہے نہ نیت۔ یہ دھمکی ویسی ہی ہے جیسے شہباز شریف حکومت کو بجٹ کے دوران 'ٹف ٹائم' دینے کا چیلنج کرتے ہیں۔

کیا بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی مستقبل قریب میں طاقت پر ایسی دسترس حاصل کر پائیں گے کہ وہ یہ تمام بدلے چکا سکیں؟ (اے ایف پی)

بلاول بھٹو زرداری نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے کارکنان کے بیٹوں کو پکڑا جائے گا تو وہ یعنی پیپلز پارٹی بھی ان یعنی پی ٹی آئی کے بیٹے پکڑے گی۔ یہ بیان انہوں نے جیل میں موجود خورشید شاہ کے بیٹے فرخ شاہ کی عدالت میں گرفتاری پر دیا۔

فرخ شاہ پر الزام ہے کہ وہ اپنے باپ کی مبینہ طور پر حاصل شدہ غیرقانونی املاک سے مستفید ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ان کو تین دن میں احتساب عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس گرفتاری دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا۔

اس کے علاوہ جعلی اکاؤنٹس کے کیس میں آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس کے دو اہم ملزمان بھی گرفتار ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بلاول بھٹو اس سخت لہجے کے ذریعے پیغام دے کر ایک پیش بندی کر رہے ہوں۔

ویسے بھی سخت بیانات دینے سے کارکنان اور ان کے بیٹوں کو تسلی رہتی ہے کہ قیادت ان کے احوال سے واقف ہے اور ان کے مسائل پر زبان کھولنے پر تیار ہے۔

کیا بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی مستقبل قریب میں طاقت پر ایسی دسترس حاصل کر پائیں گے کہ وہ یہ تمام بدلے چکا سکیں؟ فی الحال تو ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا اور نہ ہی تحریک انصاف کی حکومت کو اس طرح کی دھمکیوں سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو تو وہ سنجیدگی سے لیتے ہی نہیں۔

جو جماعت ان کو پنجاب میں کسی قسم کے سیاسی خطرے سے دوچار نہ کر پائے تو وہ اسے گھاس کیوں ڈالیں گے؟ جب فردوس عاشق اعوان نے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر خان مندوخیل کو حقیقی طور پر ہاتھوں ہاتھ لیا تو وہ شاید پی ٹی آئی کی نظر میں پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی وقعت کی ایک عملی تصویر پیش کر رہی تھیں۔

پیغام شاید یہ تھا کہ ہم ہر گھر سے نکلنے والے بھٹو کو فردوس عاشق اعوان کے حوالے کر دیں گے۔

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان فردوس عاشق اعوان کی اس کارکردگی سے بہت محظوظ ہوئے اور جب ایک ناسمجھ نے اس واقعے کی ناخوشگواری کے بارے میں بتانا چاہا تو انہوں نے اعتراض یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ پنجاب کے ننے منے وزرا ایسا کام نہیں کر سکتے۔

اس طرح کے حملوں کے لیے دور مار کرنے والی فردوسی توپیں درکار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنی خاتون مشیر کو سب زرداریوں پر حاوی سمجھتے ہیں۔

پھر دوران بجٹ پی ٹی آئی ایم این اے سے بلاول بھٹو کی نقلیں اتار اور تمسخر اڑوا کر یہ بھی ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی کے کو چیئرپرسن کو سنبھالنے کے لیے سیاسی لائحہ عمل نہیں بس نچلے درجے کی جگتیں ہی کافی ہیں۔

اور جس طرح پی ٹی آئی کی خواتین نے مسکرا مسکرا کر اس بھونڈے مذاق کو چادر اور چادر دیواری کا تحفظ فراہم کیا اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کو خاص لفٹ نہ کروانے کی پالیسی پرائم منسٹر سے لے کر مرد و خواتین کارکنان کی مکمل حمایت سے لاگو کی جا رہی ہے۔

تحریک انصاف کے اس اعتماد کی وجہ پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ہلکا سیاسی وجود ہی نہیں بلکہ یہ تسلی بھی ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو مقتدر حلقوں نے بہت اچھے انداز سے ’ہینڈل‘ کیا ہوا ہے۔ جب اتنے بڑے گُرو معاملات سنبھال رہے ہوں تو پھر شاگردوں کو پریشانی کی کیا ضرورت ہے؟

یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کبھی کبھار سندھ کے اندرونی معاملات کو اچھال کر پیپلز پارٹی مرکز کے ساتھ سینگ لڑاتے ہوئے نظر آتی ہے۔ جیسے پانی کی تقسیم، انتظامی تبادلوں و ترقیاتی سکمیوں کے معاملات۔ مگر کسی اہم موڑ پر پیپلز پارٹی نے 'بیٹے۔پکڑ' نیت کا اظہار نہیں کیا۔

سینیٹ کے تمام انتخابات حکومت کے حق میں کروانے کا بندوبست ہو یا اسمبلیوں کو چلانے میں معاونت پیپلز پارٹی کے خاموش معاہدہ عمرانی سے فیض یاب ہونے پر کمر بستہ نظر آتی ہے۔

عمران خان کی جماعت یہ جان گئی ہے کہ سیاسی و عملی طور پر پیپلز پارٹی کی سیاست فرخ شاہ کے والد خورشید شاہ کے گرد نہیں بلکہ بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری کے کیسز کے گرد گھومتی ہے۔

حکومت جس کو چاہے پکڑ لے اگر آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ آزاد ہیں تو کسی قسم کے احتجاج یا اعتراض کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی اپنے مخالفین کے بیٹے پکڑنے کے لیے مرکز میں حکومت اور ایک ’پیج‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فی الحال پیپلز پارٹی کے پاس ایسا کوئی راستہ نہیں کہ وہ مرکز میں بذریعہ پنجاب ایک ایسی حکومت بنانے کی منصوبہ بندی کر سکے جس میں وہ چُستی اور طاقت موجود ہو جو اس وقت عمران خان کی جماعت کے پاس ہے۔

ایک وقت تھا جب کچھ ہفتوں کے لیے پی ڈی ایم کی اٹھان سے حکومت اس پریشانی میں مبتلا تھی کہ شاید کوئی ایسا سیاسی بھونچال اس کو آن لے گا جس کے بعد اس کے کارکنان جاوید لطیف کی طرح جان کی امان کے لیے ادھر ادھر دھکے کھاتے پھریں گے۔ مگر پھر حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔

پی ڈی ایم کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ عمران خان کو وزارت عظمی سے نکالتے نکالتے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے نکل گئی۔ حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ اپوزیشن اتحاد میں سے اپنے استعفے پر منتج ہوا اور جو محاذ جمہوری انقلاب لانے کے لیے تیار کیا جانا تھا وہ پورس کے ہاتھی کی طرح اپنے ہی ساتھیوں کو کچلنے لگا۔

یہ سب کچھ بغیر وجہ کے نہیں ہوا۔ اس کو کروانے والے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ بالکل ویسے ہی جیسے دوسری طرف شہباز شریف کو امن کی فاختہ بنانے کے لیے ان کی مرضی سے باقاعدہ پلاننگ کی جا رہی تھی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی کے پاس کسی کے بیٹے پکڑنے کی نہ صلاحیت ہے نہ نیت۔ یہ دھمکی ویسے ہی ہے جیسے شہباز شریف حکومت کو بجٹ کے دوران 'ٹف ٹائم' دینے کا چیلنج کرتے ہیں۔ فی الحال تو اپوزیشن کو اپنے بیٹے اور والدین بچانے کی پڑی ہے۔ وہ کسی کو کیا پکڑیں گے۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی تجزیے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ