’شکایت کرنے والے ملازم کو ہی 25 ہزار روپے اجرت دلوا سکتے ہیں‘

سندھ کے وزیر تعلیم و لیبر سعید غنی نے واضح کیا ہے کہ بجٹ میں اعلان کے باوجود کم از کم اجرت تمام ملازمین کو دینا ممکن نہیں۔

پاکستانی خواتین لاہور کی سبزی منڈی میں یوم مزدور کے روز پیاز علیحدہ کر رہی ہیں (اے ایف پی فائل فوٹو)

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 15 جون کو مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ نجی و سرکاری ملازمین کی کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا۔  

سندھ حکومت کی اعلان کردہ نجی و سرکاری ملازمین کی کم از کم ماہانہ اجرت پاکستان کے بقیہ تینوں صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

تاہم سندھ حکومت اس اعلان پر کتنا عمل درآمد کراسکتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان کے رہنما ناصر منصور سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا اس اعلان پر عمل درآمد کرانا بہت مشکل ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ناصر منصور نے کہا: ’سندھ حکومت کے اس اعلان کو ہم سراہتے ہیں۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ آٹے، گھی، بجلی، ادویات سمیت روزمرہ کی اشیا کی قیمت کہاں پہنچ گئی ہے؟ ایسے میں آٹھ ہزار روپے تنخواہ لینے والے ملازمین کے لیے یہ اعلان ایک بہت بڑی خوش خبری ہے۔‘

’مگر اس پر عمل درآمد کون کرائے گا؟ حکومت کی طے کردہ کم از کم اجرت پر اس وقت تک عمل درآمد نہیں ہوسکتا جب تک ایک مکمل نظام نہ بنایا جائے۔

’سندھ میں آدھے سے زیادہ فیکٹریز میں کام کرنے والے ملازمین کو مالکان تنخواہ بھی نہیں دیتے وہ اتنی بڑی رقم ملازمین کو کیوں ادا کریں گے؟‘ 

ان کے مطابق سندھ حکومت نے لیبر تنظیموں کے دباؤ کے بعد صوبے میں کم از کم اجرت 17500 کی تھی، مگر اس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا۔

’اگر حکومت کسی فیکٹری یا صعنت کو سرکار کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم تنخواہ دینے پر مجبور کرے تو ایسی صورت میں فیکٹری مالکان آٹھ گھنٹے کی بجائے 12 گھنٹے کام لیتے ہیں۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ سندھ میں ماہی گیری اور زراعت بھی لیبر قوانین کے تحت رجسٹر ہوگئے ہیں مگر ان شعبوں کے قوانین نہ بننے کے باعث ان شعبوں سے وابستہ ملازمین حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت لینے کے قانونی طور پر مجاز نہیں۔ 

دوسری جانب گھریلو ملازمین اور گھروں میں بیٹھ کر مزدوری کرنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہے۔ ایسی خواتین کی نمائندہ تنظیم ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی رہنما زہرا خان نے کہا خیبرپختوخوا میں کم از کم تنخواہ 21 ہزار اور پنجاب میں 20 ہزار روپے ہے۔ ایسے میں سندھ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کا اعلان خوش آئند ہے۔

مگر زہرا خان سمجھتی ہیں کہ مزدور یا پھر گھریلو ملازمین یا گھروں میں بیٹھ کر سلائی، کڑھائی، زیورات کا کام کرنے والے افراد جن میں اکثریت خواتین مزدوروں کی ہے، ان کو اس اعلان کے مطابق کم از کم اجرت ملنا ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’سندھ میں ایک اندازے کے مطابق گھریلو ملازمین یا گھروں میں بیٹھ کر مزدوری کرنے والی خواتین کی تعداد 30 سے 50 لاکھ تک ہے، جنھیں سندھ ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2018 کے تحت رجسٹر کرکے کارڈ جاری کرنے تھے تاکہ وہ سرکاری طور پر اعلان کردہ کم از کم اجرت کی اہل ہوجائیں۔

’مگر تاحال سندھ میں صرف چار ہزار خواتین ہی رجسٹر ہوسکی ہیں۔ تو اس لیے ان کو اعلان کے تحت زیادہ پیسے ملنا تاحال ممکن نہیں۔

’یہ ان کو ملنا ممکن ہے جنھیں ملازمت کی تقرری کی کوئی دستاویز ملی ہوں جو نجی طور پر مزدوری کرنے والوں کے پاس نہیں ہوتی۔‘

زہرا خان کے مطابق گھریلو ملازمین یا گھر سے کام کرنے والوں کی اوسطً تنخواہ 900 روپے سے پانج ہزار روپے کے درمیان ہے۔ ’سندھ حکومت نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ یہ کم از کم اجرت کس کو ملے گی؟ کوئی نیا مزدور ہے اور ایک ماہر کاریگر تو کیا دونوں کو ہی اتنے پیسے ملیں گے؟‘

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے 2018 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں ساڑھے چھ کروڑ لیبر فورس ہے، جن میں سندھ میں ایک کروڑ 15 لاکھ، بلوچستان میں مزدوروں کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ، خیبرپختونخوا میں تقریباً 60 لاکھ اور پنجاب میں تین کروڑ 90 لاکھ ہے۔  

جبکہ تعمیراتی شعبے سے منسلک سات فیصد، ہول سیل کے شعبے کے 14 فیصد، ٹرانسپورٹ سے جڑے چھ فیصد اور لوگوں کی ذاتی خدمت سے منسلک 14 فیصد لوگ تکنیکی طور پر کم از کم اجرت والے زمرے میں نہیں آتے کیوں کہ یہ لوگ سرکار کے پاس رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔

کیا صنعت کار سندھ حکومت کے اعلان پر عمل کریں گے؟

کم از کم اجرت والے زمرے میں آنے والوں کی اکثریت صعنتوں سے منسلک ہے۔ کیا صنعت کار حکومت کے اس اعلان پر عمل کریں گے؟

یہ جاننے کے لیے کراچی چیمبر آف کامرس کے بزنس مین گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا: ’سندھ حکومت نے ایک ساتھ 42 فیصد کا اضافہ کرتے ہوئے 25 ہزار کم از کم اجرت مقرر کی ہے، جس پر عمل درآمد ہونا ممکن نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ تاحال اس اعلان کا کوئی نوٹیفکیشن نہیں آیا اور صنعت کار سندھ حکومت سے بات کرکے اس اعلان کو واپس لینے کی درخواست کریں گے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر تعلیم و لیبر سعید غنی نے کہا کہ کم از کم اجرت تمام ملازمین کو دینا ممکن نہیں۔ ’نجی شعبے میں ایک کروڑ سے زیادہ ملازمین ہیں۔ ہر گھر سے دو تین افراد نجی شعبے میں ملازم ہیں، یہ لوگ حکومت کے پاس رجسٹر ہی نہیں۔

’ان کو رجسٹر کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ مگر ان میں سے اگر کوئی لیبر ڈپارٹمنٹ کو شکایت کرے گا تو انھیں اعلان کے مطابق کم از کم تنخواہ دلا سکتے ہیں سب کو دلانا ممکن نہیں۔‘ 

نہ صرف نجی بلکہ سندھ حکومت کے مختلف سرکاری شعبوں کے ملازمین میں سے کچھ کی تنخواہیں کم از کم اجرت سے بھی کم ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

چند روز قبل وزیراعلیٰ سندھ کے ترجمان کے ایک بیان کے مطابق صوبائی حکومت کے چار لاکھ 93 ہزار 182 ملازمین ہیں۔  

ترجمان محکمہ صحت سندھ عاطف وگھیو کے مطابق محکمہ صحت میں ڈرائیور، نائب قاصد سمیت کئی ملازمین کی تنخواہ کم از کم اجرت سے کم ہے۔  

جب سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی کم از کم اجرت کی حد سے کم ہونے کے متعلق سعید غنی سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’کچھ سرکاری ملازمین کی تنخواہ کم ہوں گی، ان کو کچھ خاص الاؤنس دے کر25 ہزار تک کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اس سے کم تنخواہ والوں کی تنخواہ 25 ہزار ہوسکتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان