سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں معقولیت

سول سروس کے ملازمین کی تنخواہ پرائیویٹ سیکٹر کی سطح پر لے جانے سے بدعنوانی میں کمی واقع ہو گی اور معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔

(اے ایف پی)

پاکستان میں عموماً تمام انتظامی اور سماجی مسائل کی وجہ سول سروس کو سمجھا جاتا ہے۔ اگر معیشت اپنے گھٹنوں پر ہے تو یہ بھی سول سروس کا کمال ہے۔ اگر ملک کے بنیادی ڈھانچے میں خامیاں ہیں تو آسان ملزم سول سروس ہے۔

اور تو اور دفاعی ادارے بھی اپنی کچھ ناکامیوں کی وجہ سول سروس میں تلاش کرتے ہیں۔ انصاف کے ادارے بھی ہر وقت سول سروس کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ ان الزامات میں سب سے بڑا الزام سول سروس پر ملک میں کرپشن کی فروغ کا ہے۔

یقیناً ان الزامات میں کچھ سچائی تو ہے مگر یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔ کئی دہائیوں پر مبنی بدانتظامی، سیاسی جوڑ توڑ، فوجی مداخلت اور کرپشن نے پاکستان کی سول سروس کو اس حال پر پہنچا دیا ہے کہ وہ نہ تو موثر گورننس مہیا کر پا رہی ہے اور نہ ہی عوامی خدمات کے کام سر انجام دینے کے قابل رہی ہے۔ عوام کی نظر میں تقریباً 24 لاکھ سرکاری ملازمین بدعنوان ہیں اور عوام کی بہتری کے کاموں کی بجائے اس کا استحصال کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ سول سروس کی ناکامی اور نااہلی کو بھی سیاسی اور معاشی معاملات میں فوجی مداخلت کی ایک بڑی وجہ سمجھتے ہیں۔

سول سروس میں بدعنوانی اور دیگر مسائل ختم کرنے کے لیے کئی اصلاحات نافذ کی گئیں اور مختلف ادوار میں بہت سارے سرکاری ملازمین کو بدعنوانی اور نااہلی کی بنا پر برطرف بھی کیا گیا مگر سول سروس میں ابتری میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔

سول سروس کی ابتری کی مختلف وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ تقریباً رک گیا ہے۔ اس ڈھانچے کو اس کی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ملکی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ نظر نہیں آتا کہ کسی قسم کی اصلاحات اس اہم آئینی ڈھانچے کو جلد از جلد بہتری کی طرف لا سکتی ہیں لیکن کچھ اہم قدم اس اہم ادارے کا موثرپن واپس لا سکتے ہیں۔

ہمارے ہاں جامع اصلاحات کبھی کامیاب نہیں ہوتی ہیں اس لیے ہمیں مناسب وقفوں کے ساتھ ان اصلاحات کا اجرا کرنا چاہیے۔ ہر اصلاح کے نفاذ کے لیے مناسب اوقات کار متعین ہونا چاہیے اور اس پر سختی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔گو کہ شاید یہ ممکن نہ ہو لیکن اس میں کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

بہت سارے ماہرین کے خیال میں سرکاری ملازمین کی ناقص کارکردگی اور بدعنوانی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نامناسب تنخواہ ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ خواہش کی جانے والی سول سپیریئر سروس کے افسران جن کے پاس بے تحاشا اختیارات ہوتے ہیں اور اگر وہ انکم ٹیکس اور کسٹم کے افسران ہیں تو وہ حکومت اور کاروباری طبقہ کو اربوں کا نفع اور نقصان کروا سکتے ہیں مگر آپ ان کی تنخواہوں پر نظر ڈالیں تو انہیں شاید خود بھی کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہو گی۔

مثلا گریڈ 17 کے افسر کی ابتدائی تنخواہ تقریباً 30 ہزار روپے ہے جبکہ اسلام آباد میں اگر آپ گھر میں ایک ڈرائیور رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی تنخواہ بھی تقریبا 20 اور 25 ہزار کے قریب ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کی رہائش اور کھانا پینا مفت ہوتا ہے جس سے اس کی مجموعی تنخواہ ایک طرح سے گریڈ 17 کے افسر سے زیادہ ہی ہو جاتی ہے۔

کیا اتنی کم تنخواہ سے کسی بھی افسر کے گھر کا بجٹ پورا ہو سکتا ہے؟ اس تنخواہ میں تو شاید وہ گھر کا کرایہ بھی ادا کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو مناسب تعلیم مہیا کرسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم گریڈ 17 کے اسسٹنٹ کمشنر، اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ پولیس، اسسٹنٹ کلیکٹرکسٹم اور اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس کے اختیارات کو دیکھیں تو وہ کئی لوگوں کو خطیر نفع اور نقصان پہنچنے کی بے پناہ قانونی طاقت رکھتے ہیں۔

منطقی طور پر افسران کا حقیر مشاہرہ اور بے تحاشا اختیارات کچھ اخلاقی طور پر کمزور یا مالی مشکلات کی شکار شخصیات کو بدعنوانی کی طرف راغب کرتے ہیں۔ کسی بھی شخص کے لیے پہلی دفعہ برا کام یا بدعنوانی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ہے مگر ایک دفعہ اس راہ پر چل پڑنے کے بعد کوئی بھی اخلاقی مشکل سامنے نہیں آتی۔

اس لیے یہ ضروری ہے کہ سرکاری ملازمین کو اس پہلے غلط قدم سے روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا ڈھانچہ اس طرح بننا چاہیے کہ ایک عام گھر کا خرچ اسی تنخواہ سے آسانی سے پورا ہو سکے۔ یہ تجربہ سنگاپور میں کامیابی سے چلایا گیا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں پاکستان میں اس سے کامیابی نہ حاصل ہو۔ سرکاری ملازمتوں میں مناسب تنخواہوں کی کمی کی وجہ سے پچھلے 30 سالوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انتہائی قابل لوگوں نے بہتر مالی پیکجز کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے کو ترجیح دی ہے جس سے سول سروس میں اعلیٰ صلاحیتوں کے لوگوں میں بھی بتدریج کمی آئی ہے۔

سول سروس کے گرتے ہوئے معیار اور بڑھتی ہوئی بد عنوانی کے پیش نظر ہمارے فیصلہ سازوں کو سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ مناسب مشاہرہ اعلیٰ دماغوں کو سول سروس کی طرف متوجہ کرے گا جو نہ صرف ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا بلکہ بدعنوانی کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

بدعنوانی کا سب سے زیادہ نقصان حکومت کو کم محاصل کی صورت میں ہوتا ہے۔ جو محاصل حکومت کو ملنے چاہییں وہ بدعنوان سرکاری ملازم اور بدعنوانی کروانے والے کی جیب میں چلے جاتے ہیں۔ مناسب مشاہرے سے یہ راستہ بڑی حد تک موثر طریقے سے بند کیا جا سکتا ہے اور اس سے سرکاری ملازمین جائز اور مناسب تنخواہ حاصل کر سکیں گے اور حکومت کے محاصل کی وصولیوں میں بھی نمایاں اضافہ ہو گا۔

یہ یقیناً سرکاری ملازمین اور حکومت دونوں کے لیے بہترین حل ہو گا۔ اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے کچھ عرصہ پہلے حکومت نے اسی طرح کا سلسلہ ہمارے ہاں بھی مختصر سطح پر ایم ٹریک کی صورت سے شروع کیا لیکن یہ سہولت صرف پرائیویٹ سیکٹر سے لیے ہوئے کچھ ملازمین کو دی گئی۔

جیسے اوپر کہا گیا ہے کہ ایسا ہی تجربہ سنگاپور میں بھی کیا گیا جس کی وجہ سے اس وقت سنگاپور کے سرکاری ملازمین دنیا بھر میں بہترین تنخواہیں لینے والے ملازمین ہیں اور سنگاپور ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود دنیا کی بہت بڑی معیشت بن گیا۔ ہے یہ انقلاب صرف اور صرف قابل اور معقول اجرت والی سول سروس کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ سزا و جزا کے لیے سنگاپور نے سرکاری ملازمین کے لیے سخت ترین احتساب کا نظام بھی شروع کیا۔

سول سروس میں اصلاحات کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے اور سب سے پہلی توجہ مشاہرے کے ڈھانچے پر دینے کی ضرورت ہے اور ان کو پرائیویٹ سیکٹر کی سطح پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا مثبت اثر معیشت پر بھی پڑے گا اور بدعنوانی کرنے کی ترغیب میں بھی کمی واقع ہو گی۔ مشاہرے میں اضافے کے ساتھ ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کے لیے ایک موثر احتسابی نظام بھی شروع کرنے کی ضرورت ہے جو جلد ازجلد بدعنوان ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے میں مددگار ہو۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ