کابل کا ہوائی اڈہ اور افغانستان: محافظ کون اور حملہ آور کون؟

ترک صدر طیب اردوغان نے کہا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی میں پاکستان اور ہنگری کی افواج مدد کریں۔ پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی بات چیت۔

2002 کی اس تصویر میں افغانستان کی آریانہ ائیرلائن کا بوئنگ طیارہ کابل ائیرپورٹ  کے اوپر پرواز کر رہا ہے (اے ایف پی)

افغانستان سے امریکی اور تمام  نیٹو افواج کا انخلا تو اب یقینی طور پر طے ہو چکا ہے۔ گیارہ ستمبر 2021 تک یہ تمام فوجیں یہاں سے نکل جائیں گی۔ لیکن ان افواج کے جانے کے بعد کابل میں کیا ہو گا یہ سب سے پچیدہ سوال ہے۔

امریکہ نے جب اس کو ویت نام سےجنگ ہار کے نکلنا پڑا اور ایک تصویر جو آج تک لوگوں کے ذہنوں پر پشت در پشت نقش ہے کہ امریکی فوجی ایک امریکی ہیلی کاپٹر سے لٹک کر نکل کر اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ تو جن حالات، مشکلات اور نقصانات کےبعد ویت نام سے امریکی فوجی نکلے اس کے بعد وہ کسی صورت نہیں چاہتے کہ اسے دوہرایا جائے۔

امریکہ نے افغانستان میں ویت نام کے بعد سب سے بڑی اور طویل جنگ لڑی ہے۔ اور اب جب ان کے جانے کا وقت آیا ہے تو جیت تو ان کی ہوئی نہیں۔ ہار اس لیے گئے کہ افغان طالبان جنہیں وہ ختم کرنے آئے تھے 2001 میں وہ تو اس کے مقابلے میں اور زیادہ فوجی، سیاسی اور عسکری طاقت میں موجود ہیں۔ ایک طریقے سے امریکہ جنگ ہار کر ہی افغانستان سے نکل رہا ہے۔

لیکن کہنے کو وہ اپنی جیت کی بھی بات کرتے ہیں۔ القاعدہ کے کرتا دھرتا اسامہ بن لادن ان کو مار دیا اور ختم کر دیا ان کی تنظیم کو۔ کہنے کو تو وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ان کے پیچھے آئے تھے اور اس طرح ان کی جیت ہوئی۔ تو اس وجہ سے اگر ہم کہیں کہ یہ ایک فیس سیونگ انہوں نے ضرور اپنے لیے حاصل کی تو شاید کچھ غلط نہیں ہوگا۔

اس کے ساتھ جب پچھلے کچھ عرصے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور ایک امن معاہدہ طے کیا جس کے نتیجے میں امریکی کی ہی بنائی ہوئی صدر اشرف غنی کی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی شروعات بھی کروا دیں۔ اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان کے لیے ایک فارمولا بھی تیار کیا ہوا ہے۔

امریکی سب کو باور کروا رہے ہیں کہ وہ جیت کر افغانستان سے نکل رہے ہیں تاہم حقائق کچھ اس سے مختلف ہیں۔ ان حقائق پر بات کرنے سے قبل ایک معاملہ اٹھا ہے کابل ائیرپورٹ کا کہ اس کی حفاظت کون کرے گا۔

یہ بات ترکی نے مئی میں پہلی مرتبہ نیٹو سے کی تھی۔ ترکی کے اس وقت 500 فوجی افغانستان میں تعینات ہیں جو پچھلے تین چار برسوں سے کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی سنبھالے ہوئے ہیں۔

انہوں نے یہ پیشکش کی کہ اس اہم آمدورفت کے ذریعے کی سکیورٹی کو وہ برقرار رکھیں گے اور ان کی فوج وہاں موجود رہے گی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات پچھلے ہفتے امریکی اور ترکی کے صدور کے درمیان طے پائی کہ ترکی ہی کابل ائیرپورٹ کی بدستور حفاظت کرے گا۔

کابل ائیرپورٹ کی اہمیت اس وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ اس کے ذریعے سے آمدورفت جاری رہے گی۔ نیٹو کی افواج انخلا کر رہی ہوں گی۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کیونکہ امریکی سفارت خانہ بھی موجود ہو گا تو ان کا بھی آنا جانا اسی ائیرپورٹ سے جاری رہے گا۔ یہ ائیرپورٹ اسی وجہ سے امریکہ کے لیے خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

اب کہنے کو تو ترکی اور امریکہ کے درمیان ایئرپورٹ کی سکیورٹی کے حوالے سے ایک فیصلہ ہو گیا ہے لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ طالبان نے ایک تفصیلی بیان میں دو ٹوک الفاظ میں کہا دیا کہ ترکی کو جانا پڑے گا کیونکہ وہ نیٹو کا حصہ ہے۔ جب سب جا رہے ہیں تو ترکی بھی جائے گا۔ تو اس وقت طالبان کا موقف یہ ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ترکی کے حکام کی طالبان سے اس معاملے پر بات چیت شروع ہونے والی ہے اور وہ طالبان کو منوا لیں گے کہ انہیں ائیرپورٹ پر رہنے دیں۔ اب یہ دیکھنا ہو گا اگلے کچھ دنوں میں کہ آیا طالبان مانتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت کے لیے ترکی کو جو ضرورت ہو گی مدد کی چاہے وہ عسکری، مالی یا کوئی دوسری ہو وہ دیں گے۔

ترکی کے صدر طیب اردوغان  نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ کابل ائیرپورٹ کی حفاظت میں چاہیں گے کہ پاکستان اور ہنگری کی بھی افواج آئیں اور مدد کریں۔ پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک نہ تو کوئی فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی بات چیت ہوئی ہے۔

پاکستان میں حکومت اور اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان اس میں شراکت نہیں چاہتا کیونکہ حالات بگڑ سکتے ہیں کیونکہ کابل کی حکومت اور ان کے درمیان حال ہی میں کافی کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔ دوسرا یہ کہ طالبان کی بھی تنقید اپنی جگہ ہے کہ افغانستان کی حفاظت کے لیے غیرملکی افواج نہیں آئیں گی۔ تو فل الحال پاکستان کا کوئی حصہ ڈلتا نظر نہیں آ رہا کابل کی اس اہم تنصیبات کی حفاظت میں۔

بہرحال افغانستان میں حال ہی میں حالات بہت بگڑ گئے ہیں۔ بہت سے علاقے طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ طالبان جہاں جاتے ہیں جس شہر میں جاتے ہیں اس شہر کے لوگ ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا لڑائی میں ہار مان جاتے ہیں۔ طالبان پہ در پہ افغانستان کے مزید علاقوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

ان کے کنٹرول سے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ طالبان اور کابل حکومت میں حالانکہ بات چیت جاری ہے لیکن یہ معملات کوئی صلح صفائی سے ختم نہیں ہوں گے۔

معاہدہ کے مطابق حکومت سازی میں کابل حکومت کی شراکت داری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان عسکری طور پر زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ صدر اشرف غنی، ان کے قومی سکیورٹی کے مشیر محب اللہ اور جو نائب صدر ہیں امراللہ صالح جیسے لوگ پاکستان کی بابت سخت سے سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ بظاہر افغانستان خود 90 کی دہائی کی صورت دوبارہ اختیار کر رہا ہے۔

آنے والے چند ماہ میں افغانستان میں صورت حال کیا رخ لیتی ہے اس کا انحصار چار عناصر پر ہے۔ نمبر 1 کیا طالبان کابل اور باقی جو سیاسی اور عسکری قوتیں ہیں جن میں دوستم، گلبدین حکمت یار، عبداللہ عبداللہ اور حامد کرزئی کیا ان سب سے طالبان کی بات چیت ہو گی اور کیا افغانستان کو کیسے آگے لے کر چلنا ہے اس پر کوئی معاہدہ طے پا سکے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا پہلو افغانستان کی سکیورٹی فورسز کا ہے۔ اس کی تین لاکھ فوج کتنی اپنے آپ کو مضبوط سمجھتی ہے اور کتنی ہمت سے آگے بڑھے گی؟

ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں بھی طالبان جا رہے ہیں یا قبضہ کر رہے ہیں لوگ ان کے آگے ہتھیار ڈال رہے ہیں چاہے جنوبی، شمالی یا مغربی افغانستان ہو ان علاقوں میں فوج کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہو رہی کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا۔ پھر یہی سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کو افغانستان کی فوج واک اوور دے رہی ہے۔

تیسرے معاملے کا تعلق امریکی پالیسی سے ہے۔ پچھلے چند ہفتوں میں جس تیزی کے ساتھ طالبان علاقوں کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں کئی سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔

کیا ان کامیابیوں کے حصول کی پشت پر کوئی امریکہ کی طرف سے انہیں کوئی اشارہ ہے؟ اس صورت حال میں کابل کا لگتا نہیں کہ کوئی خاص کنٹرول ہے۔ کہیں سے بھی لگتا نہیں کہ فوج کی کمانڈ ہو رہی ہے۔

اور چوتھا اور آخری معاملہ یہ ہے کہ کس نوعیت کی جنگی صورت حال پیدا ہوتی ہے، کوئی فساد پھیلے گا یا خانہ جنگی ہو گی۔ اس صورت میں پاکستان سب سے پہلا ملک ہو گا جس پر اس کے نتیجے میں ہر طرح کے پریشر آئیں گے۔

پاکستان میں اس بات کا خوف ہے کہ افغان پناہ گزین پھر یہاں کا رخ کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا اپنا امن اور سالمیت اور اقتصادی صورت حال ان سب کا انحصار اس پر بھی ہے کہ افغانستان میں امن آئے اور خانہ جنگی کی صورت حال پیدا نہ ہو۔

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ